ہینڈ سینیٹائزرز

خبر دار!ہینڈ سینیٹائزرز کااستعمال خطرناک ہو سکتا ہے، ہینڈ سینیٹائزرز کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ کا عمل شروع نہ ہوسکا

لاہور(شہباز اکمل جندران )

کورونا وائرس کے باعث ملک میں جہاں بہت سے کاروبار اور بزنس بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہیں بہت سے کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ پھلنے پھولنے لگے ہیں۔

ایسے شعبوں میں ادویہ سازی اور کورونا سے متعلقہ اشیا ضروریہ سے متعلق بزنس شامل ہیں۔ان میں ہینڈ سینیٹائزرز ، ماسکس ،گلوز جیسی آئٹمز کے بزنس خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

کورونا وائرس کے بعد ملک کی 90 فیصد عوام نے پہلی بار ہینڈ سینیٹائزرز کا لفظ سنا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ہینڈ سینیٹائزر سماجی زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔

ملک میں ہینڈ سینیٹائزرز کی مانگ میں اچانک اضافہ ہوا اور ڈیمانڈ بڑھی ۔
توصورتحال کے پیش نظر بہت سی معروف اور غیر معروف کمپنیوں کے علاوہ عام شہری بھی گلے محلوں میں ہینڈ سینیٹائزرز بنانے لگے۔

ہینڈ سینیٹائزرز کا بنیادی جزوالکوحل ہے جس کی مقدار 60سے 80 فیصد ہوتی ہے۔تاہم پاکستان میں الکوحل بنانا،بیچنا،رکھنا اور پینا قانونا”جرم ہے۔
ایسے میں ہینڈ سینیٹائزرز بنانے والوں کے لئے الکوحل کا حصول مشکل امر تھا۔

جس کو مد نظر رکھتے ہویے متعلقہ ادارے متحرک ہوئے اور پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی PSQCAنے ملک میں سینیٹائزرز کے تمام برانڈز کی رجسٹریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور ہنگامی طورپر جنوبی افریقہ کے ہینڈ سینیٹائزرز سٹینڈرڈز کو ایڈاپٹ کرتے ہوئے۔ان برانڈز کی لیب ٹیسٹنگ شروع کردی گئی۔

پی ایس کیو سی اے نے لاہور میں 250 سے زائد ہینڈ سینیٹائزرز مینوفیکچرز کے برانڈز میں سے ابتدائی طور پر 40 برانڈز کے نمونے لئے۔جن میں سے 22 برانڈز فیل ہوگئے۔

اسی دوران چاروں صوبوں کے ایکسائز ڈیپارٹمنٹس نے الکوحل(ریکٹیفائیڈ سپرٹ) کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے L-42ڈی اور L-42جے کے لائسنس جاری کرنا شروع کردئے۔جبکہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ پنجاب اب تک 40 سے زائد ایسے لائسنس جاری کرچکا ہے۔

اسی دوران حکومت نے ہینڈ سینیٹائزرز کو ڈرگ سے متعلقہ آئٹم قرار دیتے ہوئے لائسنسنگ کا اختیار پی ایس کیو سی اے سے واپس لے کر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو دیدیا۔

تاہم یہ فیصلہ متنازعہ ہو گیا اور اختیار ایک بار پھر واپس پی ایس کیو سی اے کو دیدیا گیا۔
لیکن اس تمام صورتحال میں ملک میں ہینڈ سینیٹائزرز کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ کا عمل شروع ہی نہیں ہو سکا۔
اور ملک میں ہینڈ سینیٹائزرز کے تین سو سے زائد برانڈز میں سے اصل نقل کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان برانڈز کے اجزا کیا ہیں۔اور یہ انسانی جلد اور صحت کے لئے کس حد تک نقصان دہ ہیں اس سلسلے میں ادارے خاموش ہیں۔

ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ان کا کام ریکٹیفائیڈ سپرٹ کے لائسنس جاری کرنا ہے۔جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جاری کئے جاتے ہیں۔

ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ اصولی اور قانونی طورپر ہینڈ سینیٹائزرز کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ کا کام ڈریپ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لیکن حکومتی فیصلے کے بعد یہ اختیار پی ایس کیو سی اے کو دیدیا گیا ہے۔

جبکہ پی ایس کیو سی اے حکام کا کہنا ہے کہ جب تک ایس آر او جاری نہیں ہوتا وہ قانونا” ہینڈ سینیٹائزرز کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ نہیں کر سکتے ۔اور تاحال ایسا کوئی ایس آر او جاری نہیں ہوا۔