ولادیمیر پیوٹن

کہاں ہوئے تھے دھماکے، صدر پوتن گاڑی چلا کر پْل پر پہنچ گئے

ماسکو (رپورٹنگ آن لائن)روس کے صدر ولادیمیر پوتن خود گاڑی چلا کر ملک کو کریملن جزیرے سے ملانے والے پل پر پہنچے اور وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں سے بات چیت کی۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ وہی پل ہے جہاں دو ماہ قبل خوفناک دھماکے ہوئے اور آئل ٹینکرز کے قافلے کو آگ لگ گئی تھی۔19 کلومیٹر کے اس پل پر سے ٹریفک اور ٹرینز بیک وقت گزر سکتی ہیں۔ اس پل کا افتتاح 2018 میں خود پوتن نے کیا تھا۔آٹھ اکتوبر کو اس پل کو دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کا الزام روس نے یوکرین پر لگایا تھا۔رپورٹ کے مطابق روس کے سرکاری ٹیلی ویژن کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدر پوتن کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم مرات خوسنولن بھی موجود ہیں۔دونوں وہاں مرسیڈیز گاڑی میں پہنچے۔

اس موقعے پوتن کو یہ پوچھتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ‘کہاں دھماکے ہوئے تھے؟پوتن مزید کہتے ہیں کہ ہم دائیں طرف سے ڈرائیو کر کے پہنچے ہیں، جہاں تک میرا خیال ہے بائیں طرف مرمت کا کام ہو رہا ہے۔ اس کو جلد پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پل کو ایک پھر آئیڈیل حالت میں لانا ہے۔صدر پوتن پل کے مختلف حصوں پر پیدل بھی سفر کرتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں۔یہ یورپ کا سب سے بڑا پل ہے، جس کے کچھ حصے اب بھی جلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔یوکرین نے ابھی تک اس پل پر ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جو کہ صدر پوتن کی 70 ویں سالگرہ کے اگلے روز ہوئے تھے۔دھماکوں کے بعد روسی فیڈرل سکیورٹی سروسز نے کہا کہ یہ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس نے کروائے۔

دھماکے نے پل کی ایک سائیڈ پر بنی سڑک کو تباہ کر دیا تھا اور اس پر ٹریفک کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تھا۔دھماکے سے اس وقت پل پر گزرنے والے تیل کے ٹینکرز کو آگ لگ گئی تھی اور کئی ٹینکرز تباہ ہو گئے تھے جو کہ کریمیا جا رہے تھے۔2014 میں روس نے کریمیا کو ساتھ ملایا تھا جس کو 1954 میں خروشیف نے سوویت روس سے نکال کر سوویت یوکرین کا حصہ بنایا تھا اور 1994 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے اس کو تسلیم کر لیا تھا۔یوکرین نے روس نے کریمیا واپس لینے کا عزم ظاہر کیا کیونکہ اس پر ہونے والے حملے کے بعد تمام جنگی سازوسامان کی سپلائی اسی پل کے ذریعے ہوتی ہے۔اس پل کو پوتن کے کے ساتھی ارکیدے روٹنبرگ کی کمپنی نے بنایا تھا۔ جو بہت بڑا ڈھانچہ رکھتا ہے اور یورپ کا سب سے لمبا پل ہے۔پوتن نے پل کی تکمیل پر اس کی تعریف کرتے ہوئے فخر کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس سے قبل سوویت رہنماؤں نے اس کی تعمیر کا خواب دیکھا تھا مگر بنا نہیں پائے تھے۔