جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت ،حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن) جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیئے کہ جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی، جوڈیشل کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات دیتی ہے، بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااحتیار ہے، عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے؟ جس پر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے، عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار حاصل ہے جبکہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے، عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے بتایا کہ عدالت عظمٰی کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ شو کاز نوٹس میں 3 نقاط جوڈیشل کونسل نے شامل کیے، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لے کر الزام کے 3 نقاط نکالے، عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ اس دلیل کی سپورٹ میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا؟ جس پر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا، میری بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے، ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا، عدالت عظمٰی نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا، جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، جج نے تحریری جواب دیکر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کردیا۔

صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے، صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی، قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے،آرٹیکل 209 میں شواہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے، جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لئے ٹھوس شواہد ہونے چاہیں، پلیز مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں،عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل نے بھی اپنا دماغ لڑا کر شوکاز نوٹس جاری کیا، ریفرنس کے معاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن اپلائی کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے، جج کیخلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے، شواہد اگر تسلم شدہ ہوں تو حقائق کا ایشو نہیں ہوتا، کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے، کسی دباؤ کے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کا مواد، دستاویزات کیسے اکٹھی ہوئیں۔

عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے بتایا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہے، امریکہ میں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہے، پاکستان اور بھارت میں امریکہ کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں ہے، برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت ، وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے ملک میں ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں، اس سے غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں، ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے، سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں ؟

جس پر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آ ئیں تو اسکی حقیقت کا پتہ چلایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے ، جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے ، میں تو کہتا ہوں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔ جس پر فروغ نسیم نے موقف اپنایا کہ پرائیویسی کا حق محدود ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری معاشروں میں قانون ترقی کرتا ہے ، جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ضیاء المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے، شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا، صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کمرہ عدالت میں دیکھ کر اچھا لگا۔ سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل ویب سائٹ پر ڈال دی ہے، جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے، برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے، ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سکریسی کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا حکومت نے وحید ڈوگر سے پوچھا کہ وہ معلومات کدھر سے لے کر آئے ہیں، جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ وحید ڈوگر کو کیسے پتہ چلا یہ جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں؟

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وحید ڈوگر کو یہ معلومات کہاں سے ملیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں عدالت معلومات کا سورس نہیں پوچھتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے، ہم ججز کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہیے۔ سماعت کے دوران فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ اے آر یو نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجا، پراپرٹیز کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں، برطانیہ کہتا ہے جائیداد کی معلومات اوپن ہیں ہم سکریسی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں، جو معلومات عوام کی دسترس میں ہو ں وہ خفیہ نہیں ہیں ، جائیداد کی معلومات کوئی سکریسی نہیں ہے،

حضرت علی علیہ السلام نے جج کی سرگرمیاں جاننے کے لیے جاسوسی کا نظام بنایا تھا،آپ نے قاضی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے سے متعلق مالک اشتر کو خط لکھا تھا، قاضیوں کے معاملات کی خبر گیری اسلامی تاریخ سے بھی رکھی جاتی تھی، اسلامی قانونی نقطہ سے ہم اپنی آنکھیں موڑ نہیں سکتے، آئین کہتا ہے کہ تشریح کے لیے اسلامی شریعت کو دیکھا جائے، عدالت عظمی کے فیصلے میں لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کرتے کے بارے میں پوچھا گیا تھا،ہم میں سے کوئی حضرت علی ؑاور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑا نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی، عدالت نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی تجویز دی تو انکار کر دیا گیا، ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کے عام معاملات میں صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں، جب بات آرٹیکل 209 کی آئے گی تو صدر مملکت کو اپنی رائے بنانا ہوگی۔

جس پر فروغ نسیم نے بتایا کہ سمری سیکرٹری قانون کی طرف سے تیار کی جاتی ہے، ریفرنس سے متعلق سمری بڑی جامع ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی ایڈوائس سے صدر مملکت اختلاف کر سکتے ہیں، جس پر فروغ نسیم نے بتایا کہ صدر مملکت معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کے لئے واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس سے اختلاف نہیں کر سکتے، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں فون ریکارڈ ہو رہا تھا، یہاں تو کسی جج کی جاسوسی نہیں کی گئی، ریفرنس اور شوکاز نوٹس میں اینٹی منی لانڈرنگ قانون کی بات بھی نہیں کی گئی،

قانون کے مطابق ہنڈی حوالہ سے پیسہ باہر جاناجرم ہے، اسٹیٹ بنک کے سرکلر حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسہ باہر جانے کو منی لانڈرنگ قرار دیتے ہیں، قانون میں ایک تصور جرم کے تسلسل کا بھی ہے جبکہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں منی لانڈرنگ کو 1998 سے جرم کہا گیا، میں عدالتی فیصلے پڑھ کر ایجوکیٹ ہو رہا ہوں، ہم منی لانڈرنگ کی نہیں منی لانڈرنگ رجیم کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ منی لانڈرنگ 2010ء میں جرم تھا ہی نہیں ،جس پر فروغ نسیم نے موقف اپنایا کہ اس وقت کے قوانین ہنڈی حوالہ کی صحیح وضاحت نہیں کر پائے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم تو نہیں کہہ سکتے،ہمارے سامنے کوئی بینک ٹرانزکشن نہیں جس پر الزام دے سکیں۔ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اس لیے تو کہہ رہے ہیں کہ انکوائری ہو جائے، 20 مئی سے 28 مئی تک میڈیا پر ریفرنس کی کوئی خبر نہیں تھی، سابق چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ریفرنس جج صاحب کو پڑھنے کے لیے دیا، جج صاحب نے صدر مملکت کو خط لکھے،ریفرنس کی خبر میڈیا کو حکومت نے لیک نہیں کی،جج صاحب نے ریفرنس پڑھا اور نوٹس بھی لیا،جج صاحب نے ریفرنس پڑھنے کے باوجود خط میں لکھا مجھے تو ریفرنس کا معلوم ہی نہیں،میں بینک کے ذریعے رقم باہر بھیجوں اور جائیداد خریدوں تو ظاہر کروں گا، انکم ٹیکس قانون کے مطابق جائیداد خریداری کے ذرائع بھی بتانے لازم ہیں۔

سماعت کے دوران عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے بتایا کہ تحریری گذارشات کے لیے چار پانچ دن لگیں گے۔ سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اب جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ کا موقف سنیں گے، معزز جج صاحب کی اہلیہ کا ویڈیو لنک بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں، صرف اپنی جائیداد اور ذرائع سے متعلق وضاحت کریں، اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہیں، ہماری درخواست ہے اہلیہ مختصر بات کریں، جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔

ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا کہ موقع دینے پر عدالت کا بہت بہت شکریہ، آپکی شکرگزار ہوں، عدالتی ہدایات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ مجھ سے کیوں نہیں پوچھا جارہا، میرے خاوند نے مجھے کہا کہ ریفرنس ان کے متعلق نہیں ہے، میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا، میرے والد قریب المرگ ہیں، میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی۔

سماعت کے دوران ویڈیو لنک کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور اپنا پرانا شناختی کارڈ دکھا یا، 1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی، شادی کے اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی، میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا، اسوقت میرے خاوند جج نہیں تھے، پہلا شناختی کارڈ زائد المیعاد ہونے پر دوسرا کارڈ بنوایا، میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسٰی ہے، میری والدہ سپینش ہیں، میرے پاس سپینش پاسپورٹ ہے، الزام لگا دیا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا، جب میرے خاوند وکیل تھے تو مجھے پاکستان کا پانچ سال کا ویزا جاری ہوا، اسوقت میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا، دوسرا ویزا جب جاری ہوا میرے خاوند سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے، جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے بتایا کہ میں نے پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی، برطانیہ میں جائیداد کی خریداری کے لئے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا، کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی، ریحان نقوی میرے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے، گوشوارے جمع کرانے پر مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا، میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا، کلفٹن بلاک 4 میں جائیداد خریدی، کلفٹن کی پراپرٹی فروخت کر دی گئی، شاہ لطیف میں خریدی گئی پراپرٹی بھی فروخت کر دی گئی ہے،

میری زرعی زمین میرے اپنے نام پر ہے، زرعی زمین کا خاوند سے تعلق نہیں ہے، زرعی زمین والد سے ملی ہے، زرعی زمین ڈسٹرکٹ جیکب آباد سندھ میں ہے، ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں بھی زرعی زمین ہے، وکیل ریحان نقوی نے ایڈوائس دی کہ زرعی آمدن قابل ٹیکس نہیں ہے ، زرعی زمین کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے، حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے، میں غلط بیانی نہیں کرونگی،

ریحان نقوی نے ایڈوائس کی کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ اوپن کروائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی، بینک دس سالہ پرانا ریکارڈ نہیں رکھتے، پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بھیجا گیا، میرے نام سے پیسہ باہر گیا، جس اکاونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے، ایک پراپرٹی 236000 پاونڈز میں خریدی گئی، سٹینڈر چارٹر بینک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ پاونڈز کی رقم ٹرانسفر کی گئی، یہ تمام دستاویزات جو میں نے دکھائی ہیں اصلی ہیں، مجھے محدود وقت دیا گیا ہے،

میرا لندن اکاونٹ بھی صرف میرے نام پر ہے،245000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی، اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے،270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی، یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے، امریکن اسکول میں کام کرنا بند کیا تو ریحان نقوی نے تجویز دی کہ آمدن قابل ٹیکس نہیں ہے، اب قانون تبدیل ہو گیا ہے، 2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں، تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے، اب میں پاکستان اور برطانیہ میں انکم ٹیکس نہیں دے رہی، برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا 2016 سے ابتک کا ریکارڈ دکھایا، برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا، میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا، ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا، میں نے پوچھا میرا RTO کراچی سے اسلام آباد کیوں تبدیل ہوا، میں نے ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے، 27 جنوری 2020 کو ایف بی آر جاکر پہلا خط حوالے کیا۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے پاس ریکارڈ موجود ہے، آپ کے پاس دو فورم ہیں، فریقین سے پوچھا کہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیتے ہیں، دوسرا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، آپ وہاں پر موقف دے سکتی ہیں، آپ کے پاس سوالات کے مضبوط جواب ہیں، متعلقہ اتھارٹیز کو ان دستاویزات سے مطمئن کریں، آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا کہ مجھ سے یہ بات پہلے کیوں نہیں پوچھی گئی، 13 ماہ میں نے انتظار کیا، میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا، آغاز میں ہی مجھ سے بات پوچھ لی جاتی، میں کسی قسم کی رعایت نہیں مانگتی، میرے ساتھ عام شہری کی طرح سلوک کیا جائے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 13 ماہ سے آپ سے کسی نے نہیں پوچھا تو ہدایت کے مطابق ٹیکس گزار بنا جاتا ہے، آپ کو ٹیکس مین کے پاس جانا ہوگا، امید کرتے ہیں ٹیکس حکام آپ کو عزت دیں گے، عدالت عظمی نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ) کے روز صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی ۔