کراچی (رپورٹنگ آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کئی ماہ کی سیاسی افرا تفری کے بعد اب سیاسی حالات نارمل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ آمدہ الیکشن اوراس کے نتیجے میں ایک مستحکم منتخب حکومت کے قیام کے امکانات کی وجہ سے کاروباری برادری پرامید ہوگئی ہے۔ عوام کو امید ہے کہ منتخب حکومت عوامی مینڈیٹ کی مدد سے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے علاوہ بھی کئی جانب سے تسلی بخش خبریں آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف جائزہ بھی کامیابی کے ساتھ جلد مکمل ہونے کی توقعات ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو 71 کروڑ ڈالر کی قسط مل سکے گی۔ سٹاک مارکیٹ 56 ہزار پوائنٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ گزشتہ ماہ ایکسپورٹس میں بھی پانچ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ترسیلات کافی عرصے تک گرنے کے بعد اکتوبر میں بڑھ گئی ہیں، گزشتہ ماہ ترسیلات کا حجم ڈھائی ارب ڈالررہا ہے جو ستمبر کے مقابلے میں 9.6 فیصد جبکہ گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں 11.5 فیصد زیادہ ہیں۔
ترسیلات میں اضافہ غیرمتوقع نہیں تھا کیونکہ اوپن مارکیٹ اورانٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کا فرق کم ہوگیا ہے اس لئے بہت سے لوگ اب ہنڈی کے بجائے بینکوں کے زریعے رقوم بھجوا رہے ہیں۔ اگر ڈالروں کے سمگلروں اور زخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن اسی طرح جاری رکھا گیا تو حالات مزید بہترہوجائیں گے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اکتوبر سے قبل چھ ماہ تک ترسیلات کا حجم دو سے 2.2 ارب ڈالر رہا جس کے بعد صورتحال میں واضح تبدیلی آئی ہے جس میں سب سے اہم کردار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تارکین وطن نے ادا کیا۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ روپے کی قدر کے استحکام اور مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں کے قوانین میں اصلاحات سے بھی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کے نتیجے میں سیاسی استحکام ہوجائے تو ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاری بھی بڑھے گی۔
ایس ائی ایف سی کے تحت بھی بھاری بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہیں جس سے کاروبار، روزگار، محاصل اور برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے 10.5 فیصد کے برابر ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات اسکے جی ڈی پی کا 12.9 فیصد، سری لنکا کی 21.5 فیصد اور بھارت کی 22.4 فیصد ہیں اس لئے اس اہم شعبے کو نظر انداز نہ کیا جائے جبکہ انرجی اور زراعت کے شعبوں میں امپورٹ سبسٹیٹیوشن کی گنجائش بھی موجود ہے جس سے اٹھ سے دس ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔