میاں زاہد حسین

پاکستان بلیو اکانومی کے پوٹینشل سے فائدہ اٹھائے،میاں ز اہد حسین

کراچی (رپورٹنگ آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان بلیو اکانومی کے پوٹینشل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرعت سے ترقی کر سکتا ہے۔ بلیو اکانومی سے مراد سمندری ماحول کو محفوظ رکھتے ہوئے اسکا استعمال کر کے سماجی و معاشی ترقی کرنا ہے۔ اس میں ماہی گیری، آبی زراعت، سمندری حیات، نقل و حمل، سمندری سیاحت، ساحل کے ساتھ رہنے والوں کی فلاح و بہبود اور دیگر ساحلی و سمندری معاملات شامل ہیں۔ پودوں اور سمندری حیات کی پرورش اور ماہی گیری تمام انسانوں کو سترہ فیصد حیوانی پروٹین فراہم کر رہے ہیں۔

دنیا بھر میں سمندری تجارت 2.5 ٹریلین امریکی ڈالر پر مشتمل ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلیو اکانومی میں سمندری اور آف شور ونڈ انرجی، سی فوڈ انڈسٹری، سیاحت اور سمندر میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر سے فائدہ اٹھانا بھی شامل ہے مگر پاکستان کی موجودہ بلیو اکانومی کا بڑا حصہ میرین ٹرانسپورٹ پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی سمندری تجارت ماہی گیری کے پرانے اور فرسودہ طریقوں پر مشتمل ہے جس میں ماہی گیروں کی زندگیوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان صرف 430 ملین ڈالر سالانہ کی سی فوڈ برآمد کرتا ہے جو مختلف مسائل کی زد میں رہتی ہے۔

بلیو اکانومی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو اپنی افرادی قوت کو جدید تربیت، طور طریقوں، آلات، مہارت اور کارپوریٹ کلچر سے لیس کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سمندروں کو آلودگی سے بھی محفوظ کرنا ہوگا تاکہ سمندری حیات کی نشوونما عالمی معیارات اور سی فوڈ ایکسپورٹ کے عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ حکومت کے زیر انتظام ادارے ہیں جو سیکڑوں اربوں روپے کماتے ہیں مگر اس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔

اگر پاکستان اپنی بندرگاہوں کو خشکی میں گھری ہوئی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کے لئے استعمال کر سکے تو اس شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے جبکہ گوادرکو ٹرانس شپمنٹ، جہازوں کی مرمت اور جہاز سازی کے مرکز کے طور ابھارا جا سکتا ہے۔ یہ علاقہ ماہی گیری اور آبی زراعت کے لیے بے پناہ امکانات رکھتا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ گوادر بندرگاہ کی توسیع سے مقامی افراد کی حالت بدلے گی اور میری ٹائم انڈسٹری کو تقویت ملے گی جس کے لئے سنجیدگی سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں 529 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے 230 میٹھے پانی کی مچھلیاں اور باقی 296 سمندری مچھلیاں ہیں۔ پاکستان کے پاس بے پناہ سمندری صلاحیت اور مواقع موجود ہیں جس کا ابھی تک مکمل ادراک نہیں کیا جا سکا ہے۔ عالمی رجحانات کے مطابق بلیو اکانومی کو ترجیح دینا انتہائی اہم ہو گیا ہے۔