وزیر دفاع

ممکن ہے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ہی انتخابات کروا دئیے جائیں، وزیر دفاع

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ رواں برس پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی سے قبل ہی ملک میں عام انتخابات کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود ہی اعلان کر چکے ہیں کہ انھیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہیے، اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں ،اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی ذاتی مرضی کرنا چاہتے تھے،اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو بالکل غور کیا جائے گا،آرمی چیف کی تعیناتی کا طریقہ کار اب انسٹی ٹیوشنلائز ہونا چاہیے جیسے عدلیہ میں ہوتا ہے ،فوج کا ایک تقدس ہے اور یہ پبلک ڈومین میں موضوع بحث نہیں بننا چاہیے، عمران خان کی جانب سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ شرمناک ہے،عمران خان چاہتے ہیں میں اقتدار میں ہوں اور ادارے بیساکھیاں مہیا کریں،عدلیہ اور فوج خود نہیں بول سکتے،فوج اور آئینی اداروں کا دفاع کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم کریں گے،پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اب علاقائی ممالک ہونے چاہئیں، انڈیا کے علاوہ دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنی چاہیے،روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر پاکستان کا موقف واضح ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی ”کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوںنے کہاکہ و سکتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے ہم الیکشن ہی کروا دیں،نومبر سے پہلے،تب نگران حکومت ہو ،۔ یہ بھی ہو سکتا ہے نومبر سے پہلے نگران حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آ جائے۔اس سوال پر کہ نگران حکومت سے پہلے کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے، وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود ہی اعلان کر چکے ہیں کہ انھیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہیے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ میں اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے ہیں،اس سے پہلے جنرل راحیل شریف نے بھی کبھی مدت ملازمت میں توسیع کا براہ راست یا بالواسطہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہاکہ ملک میں فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب انسٹی ٹیوشنلائز ہونا چاہیے جیسا کہ عدلیہ میں ہوتا ہے۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ عمل انسٹی ٹیوشنلائز کرنا چاہیے جیسے عدلیہ میں ہوتا ہے اور اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں ہوتی، مجھے پتا ہے کہ 2028 میں کس نے چیف جسٹس بننا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو زیر بحث لانے کی بجائے طریقہ کار سو فیصد میرٹ پر ہو، یہ ایک بڑا اور انتہائی اہم معاملہ ہے، اس کو سیاسی بحث کا موضوع ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔وفاقی وزیر دفاع نے انٹرویو کے دوران اس تاثر پر بھی بات کی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہی وہ بنیادی معاملہ تھا جو عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کی وجہ بنا۔

انھوں نے سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی ذاتی مرضی کرنا چاہتے تھے،وہ چاہتے تھے کہ ایسا ہو کہ ان کے سیاسی مفادات اور حکمرانی کے تسلسل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔”تو کیا یہی ذاتی مرضی روکنے کیلئے یہ تمام سرگرمی ہوئی؟ اس پر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے،یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ فوج کے بھیجے ناموں میں سے کسی کو منتخب کر لے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ 2013 اور پھر 2016 میں دو آرمی چیفس کی تعیناتی ہوئی اور اس وقت کے وزیر اعظم نے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیے اور فوج کی جانب سے ریکمنڈیشن کا مکمل احترام کیا۔

نواز شریف جنرل راحیل شریف کو نہیں جانتے تھے،جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے وقت انھیں وزیراعظم اس لیے جانتے تھے کہ وہ راولپنڈی کور کمانڈ کر رہے تھے مگر دونوں مرتبہ ادارے کی تجویز کا احترام کیا گیا اور اسی دائرے میں رہتے ہوئے دونوں سربراہان تعینات کیے گئے۔ اب بھی اسی طرح میرٹ پر تعیناتی ہو گی۔اس سوال پر کہ مسلم لیگ ن لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر الزامات لگاتی رہی ہے تو کیا انھیں آرمی چیف کے طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو بالکل غور کیا جائے گا۔ ان سب ناموں پر غور ہو گا جو کہ اس فہرست میں موجود ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ اگر وزیر دفاع پانچ افسران کے نام وزیر اعظم کے پاس لاتا ہے اور ان میں فوج (لیفٹیننٹ) جنرل فیض حمید کا نام بھی تجویز کرتی ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ وزارت دفاع یا وزیر اعظم کے پاس یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ پانچ کی بجائے تین یا آٹھ نام بھیجیں۔

مسلم لیگ ن کے بیانیے سے متعلق جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاست اس چیز میں گھسیٹی گئی یا ہمارے ماضی کے تجربات میں ریڈ لائنز مکس ہو گئیں لیکن گذشتہ ماہ جو ہوا ہے وہ اس بات کا موقع دیتا ہے کہ ہم اب ایک نئے باب کا آغاز کریں اور آئین کی متعین کردہ حدود کی پاسداری کریں، اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔انھوں نے کہا کہ فوج کا ایک تقدس ہے اور یہ پبلک ڈومین میں موضوع بحث نہیں بننا چاہیے اور وہ پارٹی کی سطح پر یہ کہتے ہیں کہ نام نہ لیے جائیں۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران کی مقبولیت میں اضافے اور مسلم لیگ ن کی جانب سے عوامی سطح پر ان کا مقابلہ کرنے میں مشکلات پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیانیے کی اس جنگ میں ان کی جماعت کی شکست کا کوئی امکان نہیں۔خواجہ آصف کے مطابق وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان ایک ‘مقبول عوامی لیڈر’ ہیں مگر ان کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ موجود نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اسی لیے وہ ان دو تین بیانیوں کے پیچھے اپنی ناکامی چھپا رہے ہیں جو بدقسمتی سے عوام میں مشہور ہو جاتے ہیں، وہ بیک وقت مذہب کی وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ امریکہ مخالف بیانیہ بھی دہرا رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ روایتی سیاستدانوں کے متبادل کے طور پر ہی سامنے لائی تھی،عمران خان کو بتدریج بلڈ اپ کیا گیا کہ ایک نیا آدمی لایا جائے جس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ زیادہ کمفرٹیبل ہو،روایتی سیاستدان کے ساتھ کبھی پیار زیادہ ہو جاتا اور کبھی کم ہو جاتا تھاتو انھوں نے سوچا کہ اب یہ نیا آدمی ہے، سیاست میں تازگی لائی جائے، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے،یہ تجربہ کیا گیا اور اس سے ملک کو نقصان ہوا۔

آج عمران خان کو سوٹ نہیں کرتا کہ ادارے نیوٹرل ہو جائیں،وہ چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہوں اور ادارے انھیں بیساکھیاں مہیا کریں۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ شرمناک ہے۔انہوںنے کہاکہ گزشتہ چار سالوں میں ہر چیز ایک شخص کی ذات کے گرد گھومتی رہی، معیشت، خارجہ پالیسی سے متعلق اقدامات یا اداروں کے درمیان تعلقات، سب انہی کی خواہشات کو سامنے رکھ کر طے پایا گیا یعنی اگر ادارے ماتحت کے طور پر کام کریں تو عمران خان کے لیے ٹھیک ہے لیکن اگر ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں تو عمران خان خوش نہیں ہیں،چاہے وہ عدلیہ ہو، فوج، پارلیمان یا میڈیا ہو،میرے خیال میں عمران خان کا فوج مخالف بیانیہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا اور خود ہی ختم ہو جائے گا۔ایک سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ وہ فوجی ترجمان کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ فوج پبلک پلیٹ فارمز پر اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی۔

انہوںنے کہاکہ میرے خیال میں یہ بالکل درست ہے کہ فوج عوامی، سیاسی پلیٹ فارمز، پارلیمان اور میڈیا میں اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی کیونکہ اس ادارے کا اپنا ایک تقدس ہے اور بار بار اس قسم کے بیانات سے اس تقدس اور احترام میں کچھ سمجھوتہ ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ فوج کے لیے کچھ اسرار و احترام کی فضا ہونی چاہے۔

انہوںنے کہاکہ وہ خود بطور سیاسی ورکر اور وزیر دفاع موجودہ فوج اور عدلیہ مخالف بیانیے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کر رہے ہیں اور ان کی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی۔انھوں نے کہا کہ ہم یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رول کا دفاع کریں گے، عدلیہ اور فوج خود نہیں بول سکتے تو ہم لوگ جو قانونی اور آئینی طور پر بول سکتے ہیں، ہم ان اداروں کا دفاع کریں گے۔ کوئی بھی شخص جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور آئینی ادارے جو آئین کے مطابق اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور اگر کوئی انھیں یہ کہتا ہے کہ جو نیوٹرل ہیں وہ ‘جانور’ ہیں تو میرا یہ آئینی فرض ہے کہ میں اس کا جواب دوں۔

اس معاملے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ایسی کارروائی اور ایسے معاملات میں قانون پر عملدرآمد کے حق میں ہیں تاہم ‘کسی کو سیاسی شہید بننے کا موقع دینے کے حق میں نہیں ہیں۔عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کے اعلان کے بعد یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ خود مریم نواز بھی اعلیٰ فوجی افسران کا نام لیتے ہوئے ان پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگاتی ہیں۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ان کی جماعت کے رہنما ماضی اور حال ہی میں فوجی افسران کا نام لے رہے ہیں تاہم جس طرح عمران خان فوج پر حملے کر رہے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوا۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان تو واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں تمام ادارے اس پر عمل کریں،اس کی اطاعت کریں اور یہ ان کا فرض تھا کہ میری حکومت کی حفاظت کرتے، وہ کس طرح نیوٹرل رہ سکتے تھے؟ انھیں میری سائیڈ لینی چاہیے تھی۔انھوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں عمران خان پیرانوئیڈ ہیں، اگر میں سیاسی طور پر اسمبلی میں کمزور ہو جاؤں، میرے حلیف مجھے چھوڑ جائیں، میرے پاس ووٹوں کی طاقت نہ رہے تو اس میں فوج کا کیا قصور ہے؟ یا تو آپ خود یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 2018 میں یہ سب کچھ فوج نے بنایا تھااور اب جب وہ پیچھے ہوئے تو سب اتحاد بکھر گیا۔ اب آپ کہتے ہیں کہ وکٹیں دوبارہ لگا دو، اس طرح نہیں ہوتا،انہوںنے کہاکہ کسی ایک ادارے کو ہی نہیں بلکہ تمام اداروں کو بھی ماضی کے تمام تجربات اور حادثات سے سیکھنا چاہیے۔اس سوال پر کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا ہے کہ سیاست میں مداخلت کا تجربہ ناکام ثابت ہوا اور ایسا دوبارہ نہیں ہو گا،خواجہ آصف نے کہا کہ بات اب پچھتاوے سے آگے بڑھنی چاہیے۔

خواجہ آصف نے کہاکہ میرے خیال میں یہ تجربہ دوبارہ نہیں ہو گا۔ میری خواہش بھی ہے کہ جب ایک دستاویز یعنی آئین بن گیا تو اگر سارے ادارے اس دستاویز پر عمل پیرا ہوں تو میرے خیال میں سب کے لیے اس سے بہتر کوئی حل نہیں۔بی بی سی کے مابق سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن کو وفاقی حکومت کی کمان سنبھالنے کو ملی ہے۔ ایسے وقت میں جب ملکی معیشت انتہائی کمزور حالت میں کھڑی ہے، نو جماعتوں کی حکومت میں ہر کسی کی اپنی رائے اور ترجیحات ہیں اور تمام اتحادیوں کو خوش رکھتے ہوئے ملکی حالات میں بہتری کے لیے سخت فیصلے لینا مشکل امر ہے تو دوسری جانب عمران خان اور ان کا بیانیہ بھی حکومت کے دردسر بنا ہوا ہے۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے ایک بڑا سیاسی رسک لیا ہے،میرے خیال میں یہ دھکا کسی نے نہیں دیا، ہم نے خود ہی چھلانگ لگائی ہے، ملک اس وقت انتہائی مخدوش حالت میں ہے، اگر عمران خان مزید چودہ مہینے گزارتے تو تب تک ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان کی حکومت یقینی طور پر ناکامی کی طرف جا رہی تھی مگر ایسا نہیں کہ عوام ان کا دور اور بدانتظامی بھول گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان کی سلیٹ صاف نہیں ہوئی، ہمارے لیے یہ سیاسی رسک ہے مگر یہ رسک لینا ضروری تھا۔ ایک تو اس حکومت کے رٹ بتدریج کم ہو رہی تھی، عمران خان کے ارد گرد موجود لوگ دولت جمع کر رہے تھے، ان کا اپنا فنانشل بیک گراونڈ خاصا خراب ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، ان پر کافی سوالات ہیں۔امریکہ، روس اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کس نہج پر ہیں؟وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اب علاقائی ممالک ہونے چاہیں اور انڈیا کے علاوہ دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر پاکستان کا موقف واضح ہے اور حکومت کی تبدیلی سے اس موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ میرا موقف ہے کہ جس طرح یورپ یوکرین کے ساتھ ہے، ایسے ہی فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔افغانستان کے فوجی اڈوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ایسا کوئی مطالبہ ابھی میز پر نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان ایسا مطالبہ قبول کرے گا۔