ایران اور یورپ

ٹرمپ کی واپسی سے قبل ایران اور یورپ کی نیوکلیئر فائل کے عنوان سے بات چیت

جنیوا(رپورٹنگ آن لائن)یورپی اور ایرانی سفارت کار اس بات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملاقات کر رہے ہیں کہ آیا آنے والے ہفتوں میں خطے میں تنا کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات میں شامل ہونا ممکن ہے۔ اس بات چیت میں متنازع ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق معاملات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ بات چیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس واپسی سے قبل کی جارہی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سوئس شہر جنیوا میں طے شدہ ملاقاتوں میں جس میں ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات میں پہلی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔گزشتہ روز جنیوا میں یورپی سفارت کار اینریک مورا کے ساتھ ملاقات کے بعد ایٹمی معاملہ پر بات چیت ہو رہی ہے۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ برائے قانونی اور بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی نے ایکس پر لکھا کہ ہم نے ان سے اس بات کا اعادہ کیا کہ یورپی یونین کو اس براعظم کے مسائل کے پیش نظر اپنے خودغرض اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو ترک کرنا چاہیے۔دونوں فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی سطح اس وقت واضح ہوئی جب 21 نومبر کو تینوں ممالک نے ایک ایران مخالف قرارداد کے ذریعے معاملے کو آگے بڑھایا جس میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے کے حالیہ وعدے کے مطابق 2025 کے موسم بہار تک ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں مناسب رپورٹ تیار کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔

سفارت کاروں نے کہا کہ جنیوا کی یہ ملاقاتیں معاملہ کو ایک دماغی طوفان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں باہمی خدشات پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے کہ ٹرمپ معاملہ کو کس طرح سنبھالیں گے۔یورپی، اسرائیلی اور علاقائی سفارت کاروں نے اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ، جس میں ایران کے حساب سے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو جیسے نمایاں سخت گیر حواری شامل ہیں، زیادہ سے زیادہ دبا کی پالیسی کی طرف بڑھے گی جس کا مقصد ایران کو اقتصادی طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران بھی ایسی کوشش کی تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ خطے کے متعدد بحرانوں کو حل کرنے کے لیے کسی بڑے معاہدے کی تلاش کر سکتے ہیں جس میں علاقائی جماعتیں شامل ہوں۔2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے تین یورپی ممالک نے حالیہ مہینوں میں ایران کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے خاص طور پر جب سے تہران نے یوکرین میں اپنی جنگ میں روس کے لیے اپنی فوجی مدد کو تیز کیا ہے۔ تاہم یہ ممالک ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ دبا اور بات چیت کے درمیان پالیسی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

تین ایرانی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ تہران کا بنیادی ہدف 2018 سے عائد پابندیوں کے خاتمے کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنا ہوگا۔ یاد رہے ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران 2015 میں چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔تین عہدیداروں میں سے ایک نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جوہری تعطل پر قابو پانے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنیوا اجلاس کو مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر ہم پیش رفت کرلیتے ہیں تو واشنگٹن بعد کے مرحلے میں اس میں شامل ہوسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭