شہباز اکمل جندران۔
لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس فاروق حیدر نے ریڈ لائٹ ایر یا لاہور میں پرورش پانے والی 13معصوم اور نابالغ لڑکیوں کو ریسکیو کرنے اور ان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے دائر رٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے سیکرٹری ہیومن رائٹس، ڈی جی سوشل ویلفئیر،ڈی جی چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور آئی جی پنجاب پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے روبرو ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران نے رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سرکاری سطح پر ظاہر کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق لاہور کے ریڈلائن ایریا (ہیر امنڈی)میں اس وقت مجموعی طورپر 210افراد رہتے ہیں۔ان میں 147مرد، 35خواتین 15 نابالغ لڑکے اور 13نابالغ لڑکیا ں شامل ہیں۔جو طوائف اور جسم فروشی کرنے والی اپنی ماووں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اورنہ چاہتے ہوئے بھی اس گندے ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ بڑی ہوکر طوائف اور جسم فروش بن جائینگی۔
درخواست گزارکا کہنا تھا کہ ہیرامنڈی لاہور میں اب بھی جسم فروش عورتیں موجود ہیں اور ثبوت کے طورپر رواں سال مئی جون اور جولائی میں درج ہونے والی متعدد ایف آئی آرزبھی عدالت کے روبرو پیش کیں۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ سرکاری ادارے، چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب،یا سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ پنجاب، ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور پنجاب لوکل گورنمنٹ نے ان نابالغ لڑکیوں کو ریسکیو کرنے، ان کی حفاظت یا بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2Aِ ِآرٹیکل 9، آرٹیکل 14، آرٹیکل 25آرٹیکل 25-A، آرٹیکل 31، آرٹیکل 34، آرٹیکل 35، آرٹیکل 37(g)اور آرٹیکل 38کے تحت ہیرا منڈی لاہور میں پرورش پانے والی یہ 13نابالغ لڑکیا ں پاکستان کے کسی بھی دوسرے بچے کی طرح اپنی مرضی سے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے، کسی قسم کی تفریق کے بغیر عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے،تعلیم حاصل کرنے اور طوائف یا جسم فروش نہ بننے کا آئینی حق رکھتی ہیں۔انہیں ہیرا منڈ ی لاہور سے ریسکیو کرتے ہوئے ان کی حفاظت اور بحالی کا حکم جاری کیا جائے۔
درخواست گزار نے رٹ پٹیشن میں یہ بھی بتایا کہ اس نے ہیرا منڈی لاہور سے ان لڑکیوں کی بازیابی کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے رجوح کیا لیکن انہوں نے پٹیشنر کی درخواست پر کوئی کارروائی نہ کی