سپریم کورٹ

ہزارہ کمیونٹی اور جبری گمشدگیوں پر از خود نوٹس، سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو طلب کر لیا

اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) سپریم کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ کو عدالت طلب کرلیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بازیاب شہریوں کو ریاستی مشینری پر بھروسہ ہی نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ہزارہ کمیونٹی اور جبری گمشدگیوں پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر 4 گمشدہ افراد کی بازیابی پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ کوئٹہ سے بازیاب ہونے والے 4 گمشدہ افراد عدالت میں موجود ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے بازیاب شہری سے سوال کیا کہ آپ کو کس نے اغوا کیا تھا ؟ جس پر بازیاب شہری کا کہنا تھا کہ اغوا کاروں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے، میں شناخت نہیں کرسکتا۔

جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا بازیاب شہری خود اپنے گھر واپس آئے ؟ سوال پر شہری نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ بازیاب شہری خوف کی وجہ سے اغوا کاروں کے نام نہیں بتا رہے۔ شہری کہتے ہیں نام بتا دیئے تو ایک بار زندہ واپس آگئے دوبارہ نہیں آسکیں گے۔ بازیاب شہریوں کو ریاستی مشینری پر بھروسہ ہی نہیں۔ دوران سماعت بازیاب شہری نے کہا کہ اغوا کاروں نے 3 گھنٹے گاڑی میں گھمانے کے بعد ایک جگہ چھوڑ دیا۔ اغوا کاروں نے جہاں چھوڑا وہاں سے لفٹ لے کر گھر آئے۔ جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ 3 گھنٹے غائب رہنا کون سی جبری گمشدگی ہے؟۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ 3 گھنٹے گھما پھرا کر آپ کو چھوڑ گئے۔

عدالتی سوال پر شہری نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم 3 سال سے زائد عرصہ گمشدہ رہے۔ اغوا کاروں نے چھوڑتے وقت گاڑی میں بلاوجہ گھمایا۔ جس پر عدالت عظمی نے آئی جی بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب یہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔

3 سال اغوا رہنے والوں سے آپ اغوا کاروں کی شناخت نہیں کرا سکے۔ سرکاری ملازم عوام کے ملازم ہوتے ہیں مگر یہاں تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے۔ عدالت نے اگلی سماعت پر سیکریٹری داخلہ کو نادرا ریکارڈز کے ہمراہ طلب کرتے ہوئے کارروائی ملتوی کردی۔