شہباز اکمل جندران۔۔
پنجاب میں یکم جنوری 2008 سے 31 دسمبر 2019 تک 12 برسوں کے دوران کس کس شخص کو ممنوعہ اور غیر ممنوعہ اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔اس کو محکمہ داخلہ نے اسے خفیہ قرار دیتے ہوئے شہریوں کو معلومات دینے سے انکار کر دیا ہے۔
شہری کی طرف سے پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت محکمہ داخلہ پنجاب کو سوال نامہ بھیجا گیا۔جس میں استفسار کیا گیا کہ یکم جنوری 2008 سے 31 دسمبر 2019 تک 12 برسوں کے دوران کس کس شخص کو غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔
اور کس کس شخص کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔ جس کے جواب میں محکمہ داخلہ نے تحریری طور پر استثنی! کلیم کررے ہوئے بتایا کہ صوبے میں 2008 سے 2013 تک ڈپٹی کمشنرز کو اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کی اجازت تھی۔
2013 کے بعد صوبے میں ہر طرح کے اسلحہ لائسنس کے اجرا پر پابندی عائد کر دی گئی۔پھر 2015 میں پنجاب حکومت نے صوبے کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنسوں کا اجرا شروع کیا۔
محکمہ داخلہ کے تحریری موقف کے مطابق صوبے میں سکیورٹی خدشات اور تھریٹس کی وجہ سے گریڈ 17 یا اس سے بڑی افسروں، نامور وکلا،اعلی و ماتحت عدلیہ کے ججوں،تاجروں اور نامور شخصیات کو اسلحے کے لائسنس جاری کئے گئے۔جن کے نام سکیورٹی کی وجوہات کے باعث ظاہر نہیں کئے جاسکتے۔
جبکہ اس عرصے میں محکمہ داخلہ پنجاب نے کوئی ایک بھی ممنوعہ بور کا اسلحہ لائسنس نہیں کیا کیونکہ یہ اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔