کراچی (رپورٹنگ آن لائن)سندھ ہائیکورٹ نے آئینی عدالتوں سے متعلق گورنر سندھ کے جاری کردہ آرڈننس کیخلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔ ہائیکورٹ میں آئینی عدالتوں سے متعلق گورنر سندھ کے جاری کردہ آرڈننس کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ آرڈیننس کے سیکشن 6 میں آئینی بینچز میں تعیناتی سے انکار کو مس کنڈیکٹ بنا دیا گیا ہے۔ تعیناتی تسلیم کرنے سے انکار پر معاملہ سپریم جوڈیشنل کونسل بھیجا جائے گا۔ آئین میں سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں تقرری تسلیم نا کرنے پر سزا موجود ہے۔ آئینی بینچز کی تعیناتی تسلیم نا کرنے پر آئین میں کوئی سزا نہیں ہے۔
جب آئین میں کوئی سزا نہیں ہے تو قائم مقام گورنر کس طرح سزا دے سکتا ہے۔ ججز کے مس کنڈیکٹ کا تعین گورنر کیسے کرسکتا ہے؟ججز کے غیر جانبدار رہنے کے لئے ایگزیکیٹیو کے مداخلت ختم کی جانی ضروری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کو عدالتی کارروائی سے استثنا ہے؟ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ صدر مملکت اور گورنر عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں لیکن بہت سے کیسز میں انہیں فریق بنایا جاتا ہے۔ ہنگامی صورتحال میں گورنر آرڈننس جاری کرسکتا ہے۔ 26 ویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 202A میں ترمیم کو ایک برس گزر گیا۔
ایک برس بعد ایسی کیا ایمرجنسی آگئی کہ اسمبلی کے بجائے قائم مقام گورنر کو آرڈیننس جاری کرنا پڑا۔ سندھ اسمبلی کے سیشن ریگولر بنیاد پر ہورہے ہیں، اسمبلی سے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی؟ آرڈیننس عدلیہ پر حملہ ہے۔ جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ آپ پریشان نا ہوں، جواب آجائے تو دیکھتے ہیں۔ دراکواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ پریشان کیوں نا ہوں، رات کی تاریکی میں ترمیم آجاتی ہے۔ عدالت کا فوری طور پر آرڈیننس یا اس کی سیکشنز کیخلاف حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کردیا۔عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 27 نومبر تک جواب طلب کرلیا۔









