کراچی (رپورٹنگ آن لائن ) نیب نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی میں خلاف ضابطہ تقرریوں پر سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو 12جولائی کو طلب کر لیا۔ نیب کے مطابق خلاف ضابطہ تقرریاں پانے والے تقریبا 20کروڑ روپے کی تنخواہیں اور مراعات سمیٹ چکے ہیں۔ نوٹس کے مطابق 2015 اور 2016 میں این آئی سی وی ڈی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس ہوئے جن کے منٹس پر چیئرمین قائم علی شاہ سمیت کسی رکن کے دستخط موجود نہیں ہیں۔
نیب جاننا چاہتا ہے کہ جب بورڈ کے فیصلوں پر کسی کے دستخط ہی موجود نہیں ہیں تو مینجمنٹ کنسلٹنٹ حیدر اعوان اور چیف آپریٹنگ آفیسر عذرا مقصود کے تقرری کیسے ہوگئی؟ بورڈ کی منظوری کے بغیر ایگزیکٹو ڈائریکٹر این آئی سی وی ڈی ندیم قمر نے ان دونوں کا تقرر کیسے کر دیا؟ بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیر حیدر اعوان کیسے مینجمنٹ کنسلٹنٹ بن گئے؟ عذرا مقصود تعلیمی اہلیت کے بغیر ہی چیف آپریٹنگ آفیسر کیسے بن گئیں؟ نیب کے مطابق صرف حیدر اعوان ہی پانچ سال میں تنخواہوں اور مراعات پر 10کروڑ روپے اڑا چکے ہیں۔ اتنی خطیر رقم سیکرٹری فنانس کی اجازت کے بغیر کیسے دے دی گئی؟ رواں سال مارچ میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر مینجمنٹ کنسلٹینٹ حیدر اعوان کو معطل کرکے تنخواہ اور مراعات روک دی گئی تھیں۔ محکمہ خزانہ سندھ این آئی سی وی ڈی کو 2015 سے 2020 تک تقریبا 40ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان بھی این آئی سی وی ڈی میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کر چکا ہے جس کا ادارے نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔