عمر عطا بندیال

پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون، چیف جسٹس کا پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم

اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن) سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل کو کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کردیا گیا تھا، وہ ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کرسکتے تھے، معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کر رہے تھے۔

ن لیگ کے وکیل بریسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے رولز چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو سٹرکچر نہیں کرتے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں پانچ رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے، مسلم لیگ ن فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے؟اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں، جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسی کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کرتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا، دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے تھے

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی تھی۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عمل درآمد روکا گیا ہے، فل کورٹ کے لیے بینچ کی درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوایا گیا تھا، چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسی کیس نہیں سن رہے تھے۔بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سات رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھیجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق کی جانب سے درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمنٹ کہتی ہے کہ پانچ رکنی بینچ ہو جبکہ اٹارنی جنرل کہتے ہے فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑھ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جا سکتی ہے، قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمنٹ پانچ ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے۔ اگر تین رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

فل کورٹ اپنے رولز بنا چکیاٹارنی جنرل نے بتایا کہ موجودہ کیس میں قانون سازی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے، فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بینچ کا برا ہو گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا کے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، کیا حکومت چاہتی ہے کہ عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہوگا کہ کونسا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1973 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں جو معاملات طے کیے گئے ہیں وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے، ان میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کر سکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی کارروائی کی دستاویزات جمع کروا دی گئی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل تک ملنے کی توقع ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس حوالے سے سپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔مسلم لیگ ن نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

وفاقی حکومت نے دو روز قبل درخواستوں کے خلاف آٹھ صفحات کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے مقف اختیار کیا تھا کہ قانون کے خلاف درخواستیں انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہیں، درخواست گزاروں کی قانون کو چیلنج کرنے کی نیت صاف نہیں۔حکومت نے اپنے جواب میں مزید کہا تھا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں، ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ نئے قانون سے چیف جسٹس کا آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اختیار ریگولیٹ ہوگا اور عدلیہ کے اختیارات میں کمی نہیں ہوگی۔