اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔ اسلام آباد کی سیشن عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت کو مدعی کےوکیل نثار اصغر نے بتایا کہ ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں،والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔ مدعی وکیل نے بتایا کہ سی ڈی آر اور ڈی وی آر پولیس کے پاس تھی اور کہا کہ شوکت مقدم 10 بجے جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا، شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچا جبکہ مدعی شوکت مقدم نے کہا کہ قتل کے حوالے سے 10 بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا، گواہ پولیس کانسٹیبل اقصی رانی کہتی ہے کہ دس، سوا دس بجے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی،کرائم سین کا انچارج عمران نے کہا تھا کہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گیاتھا،تفتیشی افسرعبدالستار نے بتایا ہے کہ 9 بج کر 45 منٹ پر قتل کی اطلاع ملی تھی،تھراپی ورکس کے ملازمین تو جائے وقوعہ پر تھے، انہوں نے تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹیو طاہرظہورکو قتل کا بتایا،اگر سب کچھ تھانے میں بیٹھ کرکیا گیا ہو تو ایف آئی آر میں مختلف تحریریں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔
پراسیکیوٹر رانا حسن نے عدالت کو بتایا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک باپ کی کیا حالت ہوگی جب وہ اپنی بیٹی کی سر کٹی لاش دیکھے گا، ملزمان کے وکلا نے الزام لگایا کہ شوکت مقدم نے خون میں لت پت لاش کے حوالے سے بیان نہیں دیا، سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے گرفتارہوا، ڈی وی آر کومستند قراردیا گیا ہے اور آخری ثبوت کے طور پر لیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر رانا حسن کا مزید کہنا تھا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا ہے، مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے کپڑوں پر خون لگا ہوا ہے اور اس کے بعد کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات مانی گئی ہے کہ نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا، جب سرکوجسم سے الگ کردیا گیا تومطلب خون کی روانی نہیں ہوگی اور قتل ہوگیاہے۔ پراسیکیوٹر رانا حسن نے یہ بھی کہا کہ ڈی وی آر میں سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں آیا، اس سلسلے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے نکل گلووز پر بھی نورمقدم کا خون لگا ہوا ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نورمقدم کوقتل سےقبل ٹارچرکیا گیا، پنجاب فارنزک ایجنسی نے ڈی وی آرکو منظور کیا کہ اس پر کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ پراسیکیوٹر رانا حسن کا کہنا تھا کہ ظاہرجعفر کا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ ہوا اور میچ ہوا جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، میڈیکل رپورٹ کے مطابق نورمقدم کے پھیپھڑوں میں ڈرگ اور زہر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوئی۔
کیس کے حوالے سےپراسیکیوٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ظاہرجعفر پر قتل اور زیادتی کرنے کے چارجز لگے ہیں،ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی پر قتل کی اطلاع نہ دینے اور سہولت کار کے چارجز لگتے ہیں،اگروالدین پولیس کو اطلاع دے دیتے تو نورمقدم کو قتل ہونے سے بچایا جاسکتا تھا جب کہ چوکیدار اور مالی سب کچھ دیکھ رہے تھے لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے،چوکیدار اور مالی پر سزائے موت اور تاعمر قید کے چارجز لگتے ہیں،تھراپی ورکس کےچیف ایگزیکٹیو طاہرظہوراورملازمین پرعمر قید اور سزائے موت کے چارجز لگتے ہیں۔