سرگودھا(رپورٹنگ آن لائن)سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس محمد انوار الحق نے کہاکہ قومی مسائل حل کرنے کے لیے اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے اس لئے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے اہل قلم کو اپنا فریضہ انجام دینا ہوگا۔
پاکستان ایک نعمت خدا وندی ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں لاتعداد خوبیوں سے سرفراز کر رکھا ہے جہاں سچ لکھنا مشکل ضرور لیکن ناممکن نہیں ہے۔زرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس انوار الحق نے ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عابد حسین قریشی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں کہا کہ عابد حسین قریشی نے ملازمت کے دوران سچائی کا ساتھ دیا۔ اور اپنے تجربات اپنی کتاب عدل بیتی اور اب تجاہلِ عادلانہ میں پیش کئے ہیں۔
یہ کتاب اہلِ وطن کے لیے فلاح و بہبود کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تجاہل عادلانہ میں شامل مضامین ہماری زندگی کے عکاس ہیں۔مشاہیر سے ان کی محبت قابلِ مثال ہے ۔ وہ ایک دانش ور کی طرح سوچتے ہیں اور مجاہد کی طرح عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں عقیدت کی روشنائی سے لکھی گئی ہیں۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ عابد حسین قریشی نے ایک خوبصورت اسلوب کے ساتھ معاشرتی ناہموریوں کا ذکر کیا ہے ۔
ان کے متعدد کالم اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ انھوں نے موضوعات کے ساتھ بہت انصاف کیا ہے۔سید قاسم علی شاہ نے کہا تجاہل عادلانہ ذہنی و جسمانی طور پر بہتر زندگی گزارنے کے مشوروں پر مشتمل ہے۔آج ہم ایک دوسرے کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عابد حسین قریشی کی شخصیت دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ انھوںنے عجز و انکساری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ عاجزی میں ہی عظمت ہے اور نیکی کا راستہ دکھانے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
دوسروں کے لیے اچھا سوچنے والوں کی قدر کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے ۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے کہا کہ قلم کی قوت ہر دور میں تسلیم کی جا چکی ہے ۔ کردار سازی وقت کی ضرورت ہے ۔ معاف کرنا ، احسان کرنا، شفقت کا مظاہرہ کرنا اور برداشت کرنے سے زندگی کندن بن جاتی ہے ۔ انسان کی شناخت اس کے رویوں سے ہوتی ہے۔عابد حسین قریشی نے خوشحال زندگی گزارنے کے طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نیجو فلسفہ حیات پیش کیا ہے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ زندگی کی رعنائی و زیبائی کا راز صبر و تحمل میں مضمر ہے ۔
انصاف کرنے والوں کو زندگی میں ہی انصاف مل جاتا ہے۔ نور الحسن نے عدالتی امور پر ذاتی تجربے کی روشنی میں کہا کہ حصولِ انصاف کے لیے بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے ۔ ہمیں اپنے نظام کو بہتر بنانا ہو گا۔سردار طاہر صابرنے کہا کہ زندگی ایک امتحان ہے ۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں حق مانگنے کے ساتھ ساتھ فرض بھی ادا کرنا چاہیے۔ سچ بولنا مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ محسن کموکہ نے شگفتہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتاب میں شامل مضامین پر روشنی ڈالی۔ محمد ذوالفقار لون نے کہا کہ عابد حسین قریشی کے تجربات و مشاہدات اس کتاب کی زینت ہیں۔
حسن عباسی نے کہا کہ اس کتاب کا مطالعہ ہمیں دنیا و آخرت کی فلاح کا راستہ دکھاتا ہے ۔ ہمیں زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا تعین کرنا ہوگا۔ من کی نگری کے مصنف محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنی گفت گو میں کہا کہ زندگی باتوں سے نہیں عمل سے بنتی ہے ۔ عابد حسین قریشی کا پیغام عمل ہے ۔ ہمیں اپنے کردار سے لوگوں کے دل تسخیر کرنے چاہئیں۔