چیف جسٹس

فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کارکردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے، اٹارنی جنرل

اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کارکردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے، سپریم کورٹ کے نئے سال کے آغاز پر ججز کی تعداد مکمل نہیں ہے،اعلی عدلیہ میں خاتون جج کی کمی آدھی آبادی کو نمائندگی سے محروم رکھے گی،کورونا کے دوران ایک بھی دن عدالت نے اپنا کام نہیں روکا۔

پیر کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم نے گزشتہ عدالتی سال میں متعدد اہم فیصلے دئے، گزشتہ عدالتی سال کے دو فیصلے اہم رہے، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے، سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے نے ظاہر کیا خواتین کی ہراسانی سے متعلق اعلی عدلیہ کتنی بے بس تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج سے قبل بینچ اور بار کے درمیان اتنی دوریاں کبھی نہ تھیں، اب وکیل ہڑتال کرتے ہیں اور عدالتوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ہڑتال مزدوروں کا ہتھیار تھا جو ناانصافیوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا، اب ہڑتال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں بھی احتجاج ہوا لیکن ہم نے بردباری کا مظاہرہ کیا، آج سینیارٹی پر ججز کی تعیناتی کا مسئلہ تعلقات میں بگاڑ کی وجہ بن رہاہے، سینیارٹی کی علاوہ ججز کی کارکردگی انہیں دیگر سے نمایاں کرتی ہے،ججز کی تعیناتی میں شفافیت سے پسند اور ناپسند کے عنصر کو ختم کیا جاسکتا ہے، جسٹس وقار سیٹھ اور سندھ ہائیکورٹ بار کی زیر التوا درخواستیں جلد نمٹا کر شکوک وشبہات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد کا عہدہ سنبھالتے ہی کورونا کی وجہ سے زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا، سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں کمی کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ججز تقرری سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت ہر وقت تیار ہے۔