سینیٹ

سینیٹ میں کوورنا ویکسین مفت یا اصل قیمت پر فراہمی سے متعلق اپوزیشن کی قرارداد اکثریت سے منظور

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)سینیٹ میں حکومت کو شکست، کوورنا ویکسین مفت یا اصل قیمت پر فراہمی سے متعلق اپوزیشن کی قرارداد اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

پیر کو اجلاس کے دور ان کورونا سے متعلق قرارداد سینیٹ میں جے یو آئی (ف )کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پیش کی ، قرارداد کے حق میں 43 ووٹ آئے ،اس کی مخالفت میں 31 ووٹ پڑے۔قرارداد کا متن میں کہا گیا کہ تمام ممالک میں شہریوں کو کورونا ویکسین لگائی جارہی ہے، اکثر ممالک میں ویکسینیشن فری لگائی جارہی ہے، پاکستان میں ویکسینیشن بہت مہنگی ہے۔متن میں کہاگیا کہ پاکستان نے ویکسین منگوانے کیلئے پرائیوٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا ہوا ہے،ملک میں ویکسین کی قیمت 8400 روپے ہے، دیگر ممالک میں ویکسین کی قیمت 1500 روپے ہے، یہ آئین کے آرٹیکل 38 کی خلاف ورزی ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹیکل 38 میں واضح ہے ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرے،عالمی منڈی 1500جبکہ یہاں 2 خوراکوں کی قیمت 8400 مقررکی گئی ہے، حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

سینیٹ اجلاس میں حکومت کی جانب سے علی محمد خان نے کوورنا سے متعلق قرارداد کی تحریر پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ کورونا قومی مسئلہ ہے اس پر سیاست نہ کی جائے، قرارداد میں الفاظ پر اعتراض ہے۔۔علی محمد خان نے کہاکہ کروناکی روک تھام میں حکومت پر بری طرح ناکامی کا الزام درست نہیں،ہمیں ورثے میں کونسی سویڈن کی معیشت ملی ۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں بحران میں گری معیشت ورثے میں ملی۔وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان کی تقریر پر پی پی سینیٹربہرہ مندتنگی نے اعتراض کیا ، فیصل جاوید نے بہرہ مند تنگی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بیٹھ جائیں، اس پر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ فیصل جاوید کا رویہ غیرمناسب ہے، لگتا ہے انہیں ابھی تک یقین نہیں کہ یہ سینیٹر ہیں۔

فیصل جاوید نے چیئرمین سینیٹ سے استدعا کی کہ ان کو ایوان سے باہر نکال دیں، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے معاملہ رفع دفع کرادیا۔قبل ازیں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ ویکسین کو مفت دیا جائے،ویکسین کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے مطابق ہونی چاہئے،غریب عوام زیادہ قیمت پر ویکسین نہیں لگوا سکتی۔سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ صحت کی سہولیات عوام کا بنیادی حق ہے،چودہ سو چین کی فراہم کردہ ڈوز پنجاب میں غائب ہو گئی ہے،پاکستان نے اب تک کتنی ویکسین درآمد کی ہے، انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں ایک ساٹھ سالہ خاتون ویکسین لگوانے گئی تو کہا گیا ڈوز نہیں ہے۔

سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہاکہ کرونا عالمی آفت اور مصیبت ہے ،پاکستان کیلئے یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے،جب کرونا کی پہلی لہر آئی تو حکومت نے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کا خیال رکھا۔ انہوںنے کہاکہ این سی او سی جیسا ادارہ قائم کر کے صوبوں سے مربوط تعلق قائم کیا گیا،کابینہ کی کمیٹی برائے کرونا ویکسین کی درآمد کیلئے کوشاں ہے،چین سے ایک 1.5ملین ڈالر چین سے درآمد کیا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ چینی اور روسی ویکسین کی قیمتوں کی تعین کی منظوری دیدی ہے،جیسی جیسی ویکسین دستیاب ہوں گی ویسے ویسے لوگوں کو دی جائے گی،کورونا سے بچنے کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔اجلا س کے دور ان نکتہ اعتراض پر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ اگر قائمہ کمیٹیوں کو نظر انداز کرنا ہے تو ان کو بنانے کی ضرورت ہی نہیں،کمیٹیاں اس لئے بنائی جاتی ہے کیونکہ ہر مسئلہ پر ایوان میں تفصیلی بحث ممکن نہیں،کوئی بھی ایوان میں کھڑا ہو کر کہے کہ اس لفظ کو نہیں مانتے اس کو پینڈ کر دے ایسا نہیں چلے گا،اپوزیشن ہر معاملے کو سیاست کی نذر نہ کرے۔ حکومتی رکن سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ بل پر کمیٹی میں بہت گہرائی سے جائزہ لیا گیا،اگر کمیٹیوں کو اس طرح غیر فعال بنانا ہے تو معاملات کیسے چلے گا،یہ تو ٹوٹ بٹوٹ بن چکا ہے،پہلے ایک اپوزیشن ہوتی تھی اب اٹھارہ اپوزیشن اتحاد بن چکے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پہلے ہم ایک اپوزیشن لیڈر کوغور سے سنتے تھے،اب اٹھارہ اپوزیشن لیڈرز بولتے ہیں ،کس کوسنے سجھ نہیں آتی،بہت جلد ن ش بھی بنیں گے۔قائد حزب اختلاف نے کہاکہ ہم معزز سینیٹر کی ابہام کو دور کرنا چاہتے ہیں،ہم ترمیم کے بغیر بل کی حمایت کرتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ قانون سازی میں رکاوٹ کا تاثر دور کرنے کیلئے حمایت کر رہے ہیں،ہم کمیٹیوں کی فعالیت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت نے جتنی بھی قانون سازی کی سب متفقہ کی،اگر ہماری رائے لی گئی تو حکومت کیساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔