اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن) سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کے دوران الیکشن کمیشن سے شفاف انتخابات کیلئے تجاویز طلب کرلیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2018 سے ویڈیو موجود ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کیا الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے کرپشن ختم نہیں کرنا چاہ رہا؟ کیا الیکشن کمیشن نے عوام کو شفاف الیکشن کرانے کی تسلی دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کررہا ہے۔ عدالتی حکم پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران فاضل بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدو فروخت روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ائینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے۔ ہم نے مانیٹرنگ اور پولیٹیکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنی ہوگی، جو باتیں آپ کررہے ہیں وہ معمولی ہیں، آپ نے شائد ہمارا کل کا حکم سمجھنے کی کوشش نہیں کی، معاملے کی گہرائی کو سمجھیں، آپ کو معلوم نہیں پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے۔ کوڈ آف کنڈیکٹ بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آزاد اور آئین کے تحت مکمل بااختیار ہے، کرپٹ پریکٹس کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ووٹوں کی خریدوفروخت اور دبا کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کیا ووٹ کو کاسٹ ہونے کے بعد ہمیشہ کے لیے خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔
جسٹس یحی آفریدی نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کہا کہ کیا آپ کے ابھی تک کئے گئے اقدامات کافی ہیں، کیا ان اقدامات سے انتحابی عمل سے کرپشن روک سکتے ہیں۔ دوران سماعت الیکشن کمیشن نے قابل شناخت بیلٹ پیپرز کی مخالفت کردی، اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو کہا کہ بیلٹ پیپر پر سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے، قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں، سپریم کورٹ ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ قابل شناخت بیلیٹ پیپر کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ 2018 کے سینیٹ الیکشن کے دوران ووٹوں کی خرید و فروخت سے متعلق وڈیو پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2018 سے ویڈیو موجود ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کیا الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے کرپشن ختم نہیں کرنا چاہ رہا؟ کیا الیکشن کمیشن نے عوام کو شفاف الیکشن کرانے کی تسلی دی ہے۔
روزانہ دیکھیں الیکشن کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ویڈیو کا جائزہ لیں گے۔ پھر فیصلہ کریں گے کہ فرانزک کرانا ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے لیے تجاویز دے دیں۔ جس پر چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کی تجاویز کا جائزہ لیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی تجاویز پی ٹی آئی کی تجاویز تصور ہوں گی، تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہو گا، وقت کم ہے قانون میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔ رضا ربانی کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی قانون میں تبدیلی کا نہیں کہہ رہے، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے، تمام سیاسی لیڈرز سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی بات کرتے ہیں، الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو ہو گا الیکشن کے بعد دیکھیں، ووٹوں کی خرید و فروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے شفاف انتخابات کے حوالے سے فریم ورک پڑھ کر سنایا ، انہوں نے کہا کہ آ رٹیکل 226 کا اطلاق انتخابات کے ہر مرحلے پر نہیں ہوتا، سیکریسی کا اطلاق صرف پولنگ پر ہی ہوتا ہے، پولنگ سے پہلے اور بعد کے عمل پر سیکریسی کا اطلاق نہیں ہوتا، سینیٹ الیکشن کی سیکریسی عام انتخابات سے مختلف ہے، سینٹ الیکشن میں ووٹر کی سیکریسی صرف پولنگ کے دن تک ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے شفاف انتخابات کیلئے تجاویز طلب کرلیں، عدالت نے ہدایت کی لوگ شفاف انتخابات چاہتے ہیں، آئین کے مطابق معاملے کو حل کریں، چیف الیکشن کمشنر ممبران کی مشاورت تجاویز دیں اور کرپشن کوروکنے کیلے کئے گئے اقدامات پر آ گاہ کریں۔