احسن اقبال

سیاسی ہیجان نے ہمیشہ ملک کو پٹری سے اتارا،سب کو ملک بچانے کیلئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا’پروفیسر احسن اقبال

لاہور (رپورٹنگ آن لائن) وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیاسی ہیجان نے ہمیشہ ملک کو پٹری سے اتارا،سب کو ملک بچانے کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا ، سیاسی پولرائزیشن سے ملک کو بچانا ہوگا ،ہمیں آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے قرضوں کی بجائے اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوں گی،ٹیکس ایک ہی صارف پر لگانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ پر لانا ہوگا ،آگے دنیا کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ویسی ہی تبدیلیاں پاکستان میں بھی لانی ہوں گی،اگر دنیا کے جدید نظام کے مطابق رہنا نہیں سیکھیں گے تو مٹ جائیں گے

۔ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز 117واں نیشنل مینجمنٹ کورس اور 32واں سینئر مینجمنٹ کورس مکمل کرنے والے افسران کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ تمام شرکا کو ٹریننگ مکمل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ، کوئی شک نہیں کہ حکومتی پالیسی کو لاگو کرنے کے لیے بیوروکریسی بڑی طاقت ہے۔جب بھی ٹریننگ گروپ کو دیکھیں تو سینہ سپر ہو کہ کہہ سکتے ہیں ان کی صلاحیت میں کوئی شک نہیں یہ سب ٹیسٹ دیکر مختلف ٹریننگ سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ان کو لیول دنیا کے کسی بھی بیوروکریسی سے کم نہیں لیکن پبلک سیکٹر کو دیکھتے ہیں کہ پینتیس سال سے ہم زوال کا شکار ہیں اس سے پہلے تمام ادارے پاکستان کے بہترین ادارے تھے لیکن اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ سرکار کی بجائے پرائیویٹ سطح پر انحصار زیادہ کیا جاتا ہے ۔رفتہ رفتہ پبلک سیکٹر کارکردگی کے لحاظ سے لوگوں سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔

ریاست میں ٹرسٹ ڈفیسٹ کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے ،ایک وقت تھا کہ صنعتی انقلاب نے زرعی انقلاب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جس نے فائدہ اٹھایا وہ ملک آگے نکل گئے اب دوبارہ موقع پیدا ہوا کہ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے دور میں سب ممالک نے اپنا انفراسٹرکچر تبدیل کرنا ہے جس سے اکنامائی کو ڈیجیٹل کرنا ہے اس لیے بیوروکریسی کو بہت اچھے طریقے سے پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو آگے لیکر کیسے جانا ہے اگر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اس گروپ کو اپنی قابلیت دکھانی ہوں گی ۔

احسن اقبال نے کہا کہ میرے دماغ میں چھ طریقے ہیں جس کو لاگو کرنا ہوگا پہلا یہ کہ پیس اور ہارمونی معاشرے میں لاگو کرنا ہو گا،دوسرا یہ کہ بیوروکریسی کا کیا معیار ہو گا کہ حکومتوں کو ریگولیٹری دی جائے ۔تیسرا یہ کہ گورننس کا ماڈل فرسودہ ہو چکا ہے اب کیمونٹی بزنس اور سوسائٹی کو ساتھ لیکر جو چلے گا ٹیم بنائے گا وہ ہی بیوروکریٹ پاکستان کی صحیح معنی میں خدمت کرے گا ،چوتھا یہ کہ ملک کے داخلہ خارجہ معیشت اور تمام محکموں کے افسران کی کوارڈینیشن کیسی ہو گی یہاں دیکھا گیا ہے کہ ایک ادارہ دوسرے اداروں کے کام کو لٹکا دیتا ہے ۔پانچواں یہ کہ اپنے تجربے سے کیسے عوام الناس کو کیسے ڈیل کریں گے کہ وہ خوش ہو یا اسے خوشگوار حیرت ہو کہ اسے کسی نے اچھا ڈیل کیا ہے ۔لوگوں کو سرکار پر تجربہ اچھا ہو تو لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں اور حکومت سے خوش ہوتے ہیں ۔اور چھٹا یہ کہ ہر چیز کا نالج پانچ سات سال بعد فرسودہ ہو جاتا ہے ،اگر دنیا کے جدید نظام کے مطابق رہنا نہیں سیکھیں گے تو مٹ جائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہجب ویژن 2010ء کے لیے ملائیشیا گئے تو فارغ وقت میں وہاں کتابیں دیکھتا رہتا تھا ،پاکستان آج جہاں کھڑا ہے مجھ سے زیادہ اس کوئی زخمی نہیں ہو گا کہ ملک کو پٹری پر ڈال سکیں ،1997ء میں کوشش کی پھر 2013ء میں کوشش کی لیکن سیاسی ہیجان نے ہمیشہ ملک کو پٹری سے اتارا۔جب بجلی نہیں تھی دہشت گردی تھی تب صرف چار سالوں کے بعد تمام بڑے ملکوں کے ایمبسڈر پوچھا کرتے تھے آ کر کے ہم پاکستان میں سی پیک میں کہاں انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں چار سالوں میں 11ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی اربوں روپے کا اکانومی کو فائدہ دیا مگر بدقسمتی سے ملک میں سیاسی ہیجان نے ہر چیز کو خراب کیا۔انہوں نے کہا کہ 2018ء سے پہلے جنرل باجوہ کو کہا کہ ہمارا بندوبست تو آپ نے کر دیا پر اب ملک چل نہیں سکے گا کیونکہ اب بیوروکریسی فیصلہ کرنے سے ڈرے گی اور اس کا رزلٹ دیکھا آپ نے اگلے تین سال ملک میں کوئی فیصلہ وقت پر نہیں کیا گیا ،پٹرول گیس تک سستی نہیں لے سکے کہ کوئی پکڑ نا لے مہنگے چیزیں خریدنے پر ۔

350ارب کا ترقیاتی بجٹ ہزار ارب تک لیکر گیا لیکن اب آ کر دیکھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈ نہیں تھے ایسے حالات تب بھی نہیں تھے جب ایٹمی دھماکہ کیے ۔انہوں نے کہا کہ آج موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک برباد ہوا ۔ملک کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لیے بیوروکریسی کا بڑا عمل دخل ہو گا اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ٹیکس کولیکشن بڑھانا ہوں گی ،تمام ترقیاتی ممالک میں ٹیکس کولیکشن کی سطح سولا فیصد ہے اب ٹیکس ایک ہی صارف پر لگانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ پر لانا ہوگا کیونکہ بہت سے کاروبار پاکستان سے دوبئی اور دوسرے ممالک میں شفٹ ہو رہے ہیں۔اب آئی ایم ایف چیف بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کیسے آپ اپنا ملک چلائیں گے ۔اب بقاء صرف یہی ہے کہ بیرونی انویسٹمنٹ پاکستان آئے ۔ہم سے زیادہ ایف ڈی آئی ویتنام کی ہے اس کے لیے بزنس فرینڈلی ماحول بنانا ہو گا۔

احسن اقبال نے مزید کہا کہ 2017ء میں چینی صدر شی کے کہنے پر چین کی 100بڑی کمپنیوں نے اسلام آباد میں دفتر کھول لیے تھے جس سے بہت بڑی انویسٹمنٹ پاکستان آنے کی توقع تھی جس کا ہم نے یہ جواب دیا کہ ان پر کرپشن کے الزامات لگائے ان کے ویزے رینیو نہیں کیے جس سے وہ یہاں سے بھاگ گئے ۔ہم اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے 1960ء والی پالیسی سینے سے لگائے ہوئے ہیں ،کراچی سٹاک ایکسچینج میں کوئی ایسی کمپنی نہیں جو دس ہزار ڈالر سے زیادہ ایکسپورٹ کر رہا ہے ۔اینگرو اور فوجی فائونڈیشن جیسے بڑے ادارے بھی ڈالر جنریٹ نہیں کر رہے ۔ہمیں آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے قرضوں کی بجائے ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوں گی اور تیسری بات یہ کہ ریمٹنس جو تیس ارب ڈالر تک آ رہے ہیں اس کو مزید زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

دو ارب ڈالر کے لگ بھگ اسٹیٹ ریلیٹڈ انٹرپرائز کو دینا پڑتے ہیں ۔پی آئی اے کے لیے سالانہ سولا ارب کا خسارہ کر رہے ہیں ، کورونا کے بعد موقع تھا کہ دس سال کا خسارہ کم کر لیتے لیکن ہمارے بیانات کی وجہ سے پی آئی اے کو اتنا نقصان ہوا کہ سارا بزنس باہر کی ائیر لائن لے گئی ہیں اب ہمیں گرو اپ ہونا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی پولرائزیشن سے ملک کو بچانا ہوگا ،بیوروکریسی کو بھی کسی جماعت کے ساتھ نہیں نہیں ہونا چاہیے اور سب کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا ۔بجلی کی چوری کو نارملائز کر دیا ہے اور جو بل دے رہے ہیں ان پر ہی مزید بوجھ ڈال رہے ہیں بہت سے ڈسکوز ہیں جہاں ساٹھ فیصد سے زائد ریکوری نہیں ہے ۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی طرح بیوروکریسی کے لیے بھی سکول ہونا چاہیے جس میں ایجوکیشن، ٹریننگ اور ریسرچ پر فوکس کرنا چاہیے اور جو اس سے ٹریننگ لیں ان کوسرٹیفکیٹ ملے ۔

وزرات خزانہ سے بھی اجازت لی ہے کہ بہترین بیوروکریٹ لوگوں کو ٹریننگ دیں جو اپنے بیچ کے ٹوپر ہیں ان کو اس ٹریننگ سکول میں لایا جائے۔مستقبل میں جن چیزوں کی ضرورت ہے جیسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔سول سروس کے امتحان کو تین برانچزز میں ہونا چاہیے ۔پہلی فارن سروس دوسرا اکنامک یافنانس سے متعلق اور تیسرا میڈیا سے ہونا چاہیے جو پڑھے اسی کو اس سیٹ پر ہونا چاہیے ۔کوشش کریں گے کہ سول سروسز کو مزید بہتر کیا جائے کیونکہ آگے دنیا کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ویسی ہی تبدیلیاں پاکستان میں بھی لانی ہوں گی۔