اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)سپریم کورٹ نے سول جج ناروال کے جعلی دستخط سے دعویٰ ڈگری کرنے والے کلرک محمد یامین کی سروس بحالی سے متعلق دائر اپیل خارج کر دی۔
عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار محمد یامین کے خلاف تین جوڈیشل انکوائریز ہوئیں اور اس پر الزام ثابت ہوا۔جمعہ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سول جج ناروال کے جعلی دستخط سے دعویٰ ڈگری کرنے والے کلرک محمد یامین کی سروس بحالی سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار محمد یامین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف میرے موکل پر جعلی دستخط سے جعلی دعویٰ ڈگری بنانے کا الزام ہے ، سول جج کے دستخط لیبارٹری سے فرانزک کرانے کا کہا گیا لیکن نہیں کیے گئے ، پراسیکوشن نے میرے موکل کیخلاف الزام ثابت کرنا تھا اسلئے دستخط فرانزک کرانے کی درخواست کی تھی، ہم جج پر کوئی الزام نہیں لگاتے، استدعا ہے کہ عدالت دستخط کا فرانزک کروائے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے سول جج ناروال کے جعلی دستخط سے فائل بنائی،سول جج ناروال اعجاز احسن اعوان خود پیش ہوئے اور انہوں نے دستخط سے انکار کیا،18 سال بعد اب ہم دستخط کے فرانزک کراتے پھیریں۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے وکیل درخواستگزار کو مخاطب کرتے ریمارکس دیے کہ کیس نہ کاز لسٹ میں تھا اور نہ ہی کہیں رجسٹرڈ تھا اور آپ اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں کہ فائل فیک تھی۔
عدالت عظمی نے سول جج ناروال کے جعلی دستخط سے دعویٰ ڈگری کرنے والے کلرک محمد یامین کی سروس بحالی سے متعلق دائر اپیل خارج کر تے ہوئے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار محمد یامین کے خلاف تین جوڈیشل انکوائریز ہوئیں اور اس پر الزام ثابت ہوا۔ واضح رہے کہ 2003ئ میں محکمے نے کلرک محمد یامین کو جعلی دستخط سے دعویٰ ڈگری بنانے کے الزام میں نوکری سے فارغ کیا تھا۔2006ئ میں سروس ٹربیونل نے محمد یامین کی سروس بحالی سے متعلق اپیل خارج کردی تھی۔ محمد یامین نے سروس بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔۔