اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالتی فیصلے کی روشنی میں شفافیت کو یقینی بنائے۔، معزز جج صاحبان نے نشاندہی کی کہ الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے ، ہم پاکستان میں شفافیت اور کرپشن سے پاک معاشرے کا فلسفہ لے کر چلے ہیں، ہم نظریہ کی جنگ لڑ رہے ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے ہمیشہ پیسے اور ضمیر خریدنے کی سیاست کی ہے،
ہم چاہتے ہیں منتخب نمائندے پیسے کے زور پر نہیں اہلیت کی بنیاد پر آئیں، حفیظ شیخ ایک ایماندار اور قابل شخص ہیں،ہر وہ شخص جو قابل اور ایماندار ہو وہ پاکستان تحریک انصاف کا ڈی فیکٹو ممبر ہے، پی ڈی ایم قلابازیاں کھاتی رہتی ہے، ن لیگ چاہتی ہے کہ فیصلے ان کی منشا کے مطابق ہوں، عدالتیں آزاد ہیں، کئی فیصلے ہمارے خلاف بھی آئے ہیں، لیکن مریم نواز کہتی ہیں کہ جو فیصلہ حق میں آئے وہ ٹھیک ہے۔
پیر کو سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے جس میں بظاہر یہی لگتا ہے کہ انتخابات آئین کی دفعہ 226 کے تحت ہوں گے لیکن ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر اقدام اٹھائے اور ووٹ کی رازداری حتمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا الیکشن کمیشن سے ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ بیلٹ پیپر میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے چاہے بار کوڈ کے ذریعے ہوں یا سیریل نمبر کے ساتھ ہو اس بات کو یقینی بنائیں کہ سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں ووٹ کی رازداری دائمی نہ ہو، وقت کے تقاضے اور ہیں اور زمینی حقائق اور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اتنے بڑے ادارے کے اراکین کے انتخابات میں شفافیت پر سوال اٹھیں گے تو ان کی اخلاقی حیثیت کمپرومائز ہوتی ہے اور جو پیسے کے زور پر آتے ہیں وہ اپنے، گروہی اور کاروباری مفادات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے ذاتی مفاد ان کے آڑے آتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک اور عوام کی بہتری کے لیے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ ہمارا ملک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود اخلاقی اور معاشی طور پر وہ ترقی نہیں کرسکا جس کا وہ حقدار ہے اور اس کا آغاز پارلیمان سے ہوتا ہے، اسی وجہ سے ہم سپریم کورٹ گئے اور آئین کی دفعہ 226 کی وضاحت چاہی، پارلیمان میں بل پیش کیا اور صدارتی ریفرنس جاری کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سب کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کہ عملی طور پر کیا اقدامات جائیں اور آئین کی تشریح کا واحد پلیٹ فارم یعنی سپریم کورٹ اس میں ہماری رہنمائی کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت نے جو آئین کی تشریح مانگی تھی وہ بہت اچھا فیصلہ تھا، ہماری پارٹی اور عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کا یہ ایک اہم سنگ میل ہے کیوں کہ ہم شفافیت اور بدعنوانی سے پاک معاشرے کا نطریہ لے کر نکلے تھے اور یہ وہ عملی اقدامات ہیں جو اس سلسلے میں ہماری حکومت نے اٹھائے۔
شبلی فراز نے کہ ہم مسلسل 2 نظریوں کی جنگ لڑرہے ہیں، ایک نظریہ یہ کہ ملک اسی طرح چلے جیسے چلتا آرہا ہے جس کی سربراہی اپوزیشن کررہی ہے جس نے ہمیشہ ضمیر خریدنے کی سیاست کی ہے وہ تاریخ کے بائیں جانب کھڑے تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تاریخ کے دائیں جانب کھڑی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ہر منتخب نمائندہ وہ پیسے کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر پارلیمان میں آئے اور ان کے ذاتی مفادات راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور وہ عوام کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پرانا پاکستان،جس میں پیسے کا زور ہوں، میرٹ اور شفافیت کا قتل عام ہو اور ایک جانب تحریک انصاف ہے جو چاہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات شفاف طریقے سے ہو، جمہوریت کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ عوم کے نمائندے عوام کی خدمت کریں اور عوام کے مفاد کے لیے کام کریں۔