شہباز اکمل جندران۔۔۔
ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے آج سے صوبے میں اپنے تمام دفاتر میں ٹوکن ٹیکس کی وصولی روک دی ہے۔
سیکرٹری ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب وجیہ اللہ کندی کی طرف سے جاری ہونے والا حکم نامہ دی پنجاب موٹر ہیکلز آرڈیننس 1965 اور فنانس ایکٹ 2020کو نہ صرف VIOLATEکرتا ہے بلکہ صوبائی سیکرٹری کے محکمے سے متعلق ان بنیادی قوانین سے ناواقفیت بھی بیان کرتا ہے۔
صوبائی سیکرٹری کے خلاف قانون حکم نامے سے صوبے بھر میں گاڑیوں کا ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کے لئے آنے والے ٹیکس گزاروں پر ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے دروازے عملی طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔
ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں ایک ہزار سی سی سے زائد طاقت کی حامل تمام نان کمرشل اور ہر طرح کی کمرشل گاڑیوں کو مینوئل طریقے سے ٹوکن ٹیکس ادا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
جس سے صوبائی حکومت کو روانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کے نقصان کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے عوام کو بذریعہ ای پے ٹوکن ٹیکس اس کر نا ہوگا۔
تاہم ای پے کے تحت ادائیگی کے لئے عام شہری اور ٹرانسپورٹرز کو متعدد ناگزیر مسائل کا سامنا ہے۔
نمبر ایک۔۔ای پے کے تحت ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی لے لیئے ایپ ڈاون لوڈ کرنا ضروری ہے۔جس کے لیئے سمارٹ فون یا اینڈرائیڈ موبائل فون ضروری ہے۔جن شہریوں اور ٹرانسپورٹرز کے پاس اینڈرائیڈ ڈیوائسز نہیں ہیں وہ پہلے سمارٹ فون خریدیں گے، پھر اپلیکیشن ڈاون لوڈ کریں گے۔اور پھر ٹوکن ٹیکس ادا کریں گے
نمبر دو۔۔جن ٹرانسپورٹرز اور شہریوں کے پاس اینڈرائیڈ ڈیوائس یا سمارٹ فون نہیں ہیں اور وہ نیا موبائل فون خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے وہ کسی دوسرے شخص یا وکیل کے ذریعے فیس ادا کرکے ٹوکن ٹیکس ادا کریں گے۔
نمبر تین۔۔جو شخص اینڈرائیڈ موبائل فون رکھتا ہے لیکن غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اپلیکیشن کو استعمال نہیں کر پاتا وہ بھی کسی دوسرے شخص یا وکیل کے ذریعے ٹوکن ٹیکس ادا کرنے پر پابند ہوگا۔
نمبر چار۔۔جن شہریوں کی گاڑیاں چوری ہوچکی ہیں۔تو چور گھر بیٹھے ایپ کے ذریعے ٹوکن ٹیکس ادا کرکے آزادانہ نقل و حرکت جاری رکھ سکتے ہیں۔جبکہ مینوئل طریقے سے ایکسائز اہلکار سے ایسے شخص کے کوائف با آسانی معلوم کیئے جاسکتے ہیں۔
نمبر پانچ۔۔ای پے کے تحت ٹوکن ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو کسی قسم کا پرنٹ نہیں ملے گا۔ٹیکس کی ادائیگی کا پرنٹ نکلوانے کے لیئے انہیں پھر دوسروں کا محتاج ہونا پڑیگا۔جبکہ سادہ کاغذ پر ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی کے متعلق تحریر کو نہ صرف محکمہ خود تسلیم کرنےمیں ہچکچاہٹ محسوس کریگا بلکہ دوسرے صوبوں میں ایسی “دیسی” یا کچی رسیدوں کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔بلکہ ادائیگی کی صرف پکی رسیدوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
نمبر چھ۔۔آن لائن ادائیگی میں اکثر شہریوں کو رقم کے ضیاع جیسی شکایات کا سامنا کرنا پڑیگا۔جہاں ان کے اکاونٹ سے ڈیڈکشن تو ہوگی۔لیکن ادائیگی شو نہیں ہوگی۔اسی صورت میں متعلقہ شہریوں کو کئی کئی دفاتر کے چکر لگانا پڑینگے