اسلام آباد ہائیکورٹ

گرفتار پی ٹی آئی رہنماﺅں کے جسمانی ریمانڈ کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار رہنماوں کے جسمانی ریمانڈ کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا،جسٹس عامر فاروق نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس ایف آئی آر کا آتھر بھی دلچسپ ہے، یہ اسلام آباد پولیس ہے یا رضیہ ہے جوغنڈوں میں پھنس گئی، کریڈٹ دینا ہوگا کہ بڑے عرصے بعد اچھی کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے، جس نے بھی یہ ایف آئی آر لکھی اس نے اچھی کامیڈی لکھی ہے ، جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ شعیب شاہین پر پستول ڈال دی، شعیب شاہین کو میں نہیں جانتا؟ گوہر خان کہہ رہے ہیں کہ پستول نکال لی، گوہر کو آپ اور میں نہیں جانتے؟ ۔

جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پی ٹی آئی جلسے کے بعد درج مقدمات اور گرفتاریوں کا معاملے پر گرفتار رہنماں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل عدالت میں پیش ہوئے، ملزمان کی جانب سے اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین عادل عزیز قاضی اور راجہ حلیم عباسی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جی تو اسٹیٹ آگئی ہے، جسمانی ریمانڈ کے تمام آرڈرز ایک جیسے ہی ہیں، اسٹیٹ کو جواب دینے دیں کہ ایسا کیا ہوگیا تھا کہ آٹھ، آٹھ روز کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا، یہ تو ایسا عمل ہے جس کی کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ پراسیکیوٹر جنرل کے ایف آئی آر پڑھنے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس ایف آئی آر کا آتھر بھی دلچسپ ہے، یہ اسلام آباد پولیس ہے یا رضیہ ہے جوغنڈوں میں پھنس گئی، کریڈٹ دینا ہوگا کہ بڑے عرصے بعد اچھی کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے، جس نے بھی یہ ایف آئی آر لکھی اس نے اچھی کامیڈی لکھی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ شعیب شاہین پر پستول ڈال دی، شعیب شاہین کو میں نہیں جانتا؟ گوہر خان کہہ رہے ہیں کہ پستول نکال لی، گوہر کو آپ اور میں نہیں جانتے؟ کامیڈی آپ نے پڑھ لی، اب اِن سے کیا برآمد کرنا ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ شعیب شاہین سے ڈنڈا برآمد ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی، جس پر کمرہِ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ شیر افضل مروت سے بھی پستول برآمد ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ 4 دن ہوگئے، آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا، 8 دن کا ریمانڈ کیوں دیا گیا؟ 2 دن کا دے دیتے، کسٹڈی دی جاتی ہے لیکن حتمی طور پر کسٹڈی کورٹ کی ہی ہوتی ہے، اس مقدمے میں مضحکہ خیز قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور 8 دن کا ریمانڈ دے دیا، اگر الزام درست بھی مان لیں تو اس کا ایک طریقہ کار ہے ، یہ سٹوری جس نے بنائی ہے مزیدار قسم کی کہانی ہے جس پر فلم بن سکتی ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جتنا تحمل کرتے ہیں مجھے معلوم ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔