وزیر اعلیٰ سندھ

سندھ کا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ

کراچی (رپورٹنگ آن لائن)وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 26ـ2025 کیلئے 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، سرکاری ملازمین کیلئے بجٹ میں 10 تا 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دینے، 5 فیصد محصولات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے،سال 26ـ2025 کے لیے صوبے کی وصولیاں 34 کھرب 11 ارب روپے متوقع ہیں، موجودہ ریونیو اخراجات 21کھرب 49 ارب ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں،تعلیم کے شعبے کیلئے 523.73 ارب روپے کی رقم مختص ،صحت کے شعبے کے لیے بجٹ 326.5 ارب روپے مقرر کئے گئے ہیں ،

کراچی میں شہری نقل و حمل پاکستان کی پہلی 50 الیکٹرک بسوں کے آغاز کے ساتھ وسیع ہوگی،تعلیمی بجٹ کی نچلی سطح پر منتقلی اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کو عملی فنڈز کے ساتھ بااختیار بنائے گی، وکلا، صحافیوں اور اقلیتوں کے لیے فلاحی اور ترقیاتی اقدامات کی مد میں خصوصی گرانٹس بھی فراہم کی جائیں گی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج اور شورشرابہ نے کہا ہے کہ یہ بجٹ سندھ کا نہیں وڈیرا شاہی کا بجٹ ہے اور اس میں صرف جاگیرداروں اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے،بجٹ میں شہری سندھ کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ و وزیرخزانہ سید مراد علی شاہ اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جامع بجٹ ہے جو سندھ کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرے گا، انہوں نے کہا کہ سماجی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی جدت اور اقتصادی خودمختاری کے لیے پرعزم ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جارہا ہے، گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کیلئے 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس ملے گا جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ معذور ملازمین کے لیے کنوینس الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے اور واجب الادا پنشن کی مکمل ادائیگی کی جائے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ شہریوں کا مالی بوجھ کم کرنے کیلئے 5 محصولات ختم کیے جارہے ہیں، سندھ میں پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ موٹر وہیکل ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے اور سیلز ٹیکس کو آسان بنانے کے لیے نیگیٹو لسٹ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ مالی سال 26ـ2025 کے لیے صوبے کی وصولیاں 34 کھرب 11 ارب روپے متوقع ہیں، جو رواں سال کے مقابلے میں 11.6 فیصد زیادہ ہیں، وفاقی قابل تقسیم پول سے منتقلی، جو کل آمدنی کا 75 فیصد ہے کا تخمینہ 19 کھرب 27 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو 10.2 فیصد اضافہ ہے، اس کے باوجود رواں سال کے نظرثانی شدہ تخمینوں میں 5.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اضافی وفاقی منتقلی، بشمول براہ راست منتقلی اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کے خاتمے سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے گرانٹس بھی بڑھنے والی ہیں، جس سے کل وفاقی منتقلی 20 کھرب 95 ارب روپے ہو جائے گی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ ریونیو اخراجات 21کھرب 49 ارب ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں، جو مالی سال 25ـ2024 کے 19 کھرب 12 ارب ارب روپے سے 12.4 فیصد زیادہ ہیں، یہ اضافہ افراط زر کے دباؤ، ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں جیسے غیر مالیاتی اداروں کو دی جانے والی گرانٹس میں اضافے، سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہ ریلیف الاؤنس، اور پنشن کی زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے ہے۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کل اخراجات میں 12.9 فیصد اضافہ ہو کر 34 کھرب 50 ارب روپے ہونے کی توقع ہے، موجودہ ریونیو اخراجات میں 12.4 فیصد اضافہ ہو کر 21 کھرب 50 ارب روپے ہو جائیں گے، جس کی بنیادی وجوہات تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ (6 فیصد)، مقامی اداروں کو گرانٹس (3 فیصد) اور اہم شعبوں میں نمایاں اضافہ ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تعلیم کے شعبے کیلئے 523.73 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، جو گزشتہ سال کے 458.2 ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد اضافہ ہے، یہ کل موجودہ ریونیو اخراجات کا 25.3 فیصد بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام تعلیمی سطحوں پر نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، پرائمری تعلیم کا بجٹ 136.2 ارب روپے سے بڑھ کر 156.2 ارب روپے ہو گیا ہے، جبکہ سیکنڈری تعلیم کا بجٹ 68.5 ارب روپے سے بڑھ کر 77.2 ارب روپے ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شعبہ تعلیم کے لیے نئے اقدامات میں 4400 نئے عملے کی بھرتی، چار آئی بی اے کمیونٹی کالجز کا قیام، اور 34100 سے زیادہ پرائمری اسکولوں کو مخصوص لاگت کے مراکز اور بجٹ کے ساتھ بااختیار بنانا شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ مستحق اور پسماندہ طلباء کی مدد کے لیے سندھ ایجوکیشنل اینڈوومنٹ فنڈ میں 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، معذور افراد کے ترقیاتی پروگرام (ڈی ای پی ڈی ) کا بجٹ 11.6 ارب روپے سے بڑھ کر 17.3 ارب روپے ہو گیا ہے، جو معاون آلات، وظائف، اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز ) کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے مزید مدد فراہم کرے گا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کے شعبے کے لیے بجٹ 326.5 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی 302.2 ارب روپے کی مختص رقم کے مقابلے میں آٹھ فیصد زائد ہے، اس رقم میں سے، 146.9 ارب روپے صحت کے یونٹوں اور اداروں کے لیے امدادی گرانٹس کے طور پر مختص کیے گئے ہیں۔صحت کے بجٹ میں سے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ( ایس آئی یو ٹی) کیلئے 19 ارب روپے، پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی ) کیلئے 16.5 ارب روپے، اور لاڑکانہ میں ایک نئے ہسپتال کے لیے 10 ارب روپے شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ایمبولینس سروسز اور موبائل تشخیصی یونٹس کو بھی توسیع دی جائے گی۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی ) کے لیے 1018 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس میں سے صوبائی اے ڈی پی کیلئے 520 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے ساتھ ضلعی اے ڈی پی، غیر ملکی منصوبوں کی امداد (ایف پی اے )، اور وفاقی ترقیاتی گرانٹس بھی شامل ہیں۔سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اہم نکات میں صوبائی اے ڈی پی : 520 ارب روپے، ضلعی اے ڈی پی : 55 ارب روپے، غیر ملکی منصوبوں کی امداد (ایف پی اے ): 366.72 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی پروگرام: 76.28 ارب روپے شامل ہیں ،سالانہ ترقیاتی پروگرام اور ترقیاتی پورٹ فولیو کی توجہ درج ذیل پر مرکوز ہے، سیلاب سے متاثرہ اسکولوں اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی تاکہ تعلیمی رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔

انہوںنے بتایاکہ • خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے صحت کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنا،آب و ہوا کے لحاظ سے پائیدار زراعت اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کو فروغ دینا، عوامی صحت کو بہتر بنانے کے لیے صاف پینے کے پانی اور صفائی کی فراہمی، کراچی میں سڑکوں کے رابطے اور شہری بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا، بشمول ماس ٹرانزٹ اور سیف سٹی منصوبے، گرین انرجی کے اقدامات اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کا نفاذ ، غذائی امداد، کمیونٹی انفراسٹرکچر، اور کم لاگت رہائش کے ذریعے غربت کا خاتمہ شامل ہے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 3642 اسکیمیں شامل ہیں جن کے لیے 400.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس کا 82.6 فیصد (3161 ارب روپے) جاری منصوبوں کے لیے ہے اور 17.4 فیصد (481 ارب روپے) نئے اقدامات کے لیے ہے، خصوصی ترقیاتی اقدامات کے لیے 119.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعلیم کیلئے 102.8 ارب روپے، صحت کیلئے 45.4 ارب روپے، آبپاشی کیلئے 84 ارب روپے، مقامی حکومت کیلئے132 ارب روپے، ورکس اینڈ سروسز کیلئے 143 ارب روپے،• توانائی (بشمول تھر کول اور قابل تجدید) کیلئے36.3 ارب روپے، زراعت، لائیو اسٹاک، ماہی گیری کیلئے 22.5 ارب روپے، ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کیلئے 59.7 ارب روپے شامل ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کے لیے اہم بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں جن میں سڑکوں کی بحالی اور متعدد اضلاع میں سیوریج اور پانی کی فراہمی میں بہتری شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں شہری نقل و حمل پاکستان کی پہلی 50 الیکٹرک بسوں کے آغاز کے ساتھ وسیع ہوگی اور اگست 2025 تک مزید 100 بسیں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ شہر کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبوں میں یلو لائن تکمیل کے قریب ہے اور ریڈ لائن 50 فیصد سے زیادہ مکمل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹAI-integrated CCTVسسٹمز کے نفاذ اور کوریج کی توسیع کے ساتھ نمایاں پیشرفت کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورنگی کاز وے برج اور شاہراہِ بھٹو کی بہتری جیسے بڑے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ نئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل اقدامات ورثہ کی بحالی، کاروباری علاقوں کو بہتر بنانے، اور اہم سڑکوں کی تعمیر میں سہولت فراہم کریں گے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایک مرکزی کی پرفارمینس انڈیکیٹر ( کے پی آئی) مانیٹرنگ ڈیش بورڈ کا آغاز منصوبوں کی حقیقی وقت میں ٹریکنگ کو ممکن بنائے گا، بلاک چین پر مبنی اراضی ریکارڈ اصلاحات کا مقصد جائیداد کے لین دین کو آسان بنانا اور شفافیت کو بڑھانا ہے۔مزید برآں ایک ڈیجیٹل پیدائش رجسٹریشن سسٹم کا ہدف 2028 تک 100 فیصد کوریج حاصل کرنا ہے، جس میں صحت اور تعلیم کا ڈیٹا بھی شامل ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بینظیر ہاری کارڈ کا اجرا 200000 سے زیادہ کسانوں کو سبسڈی اور میکانائزیشن کی مدد فراہم کرے گا، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت کو ڈرپ اریگیشن سبسڈی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی کلسٹر فارمنگ منصوبوں کے ذریعے فروغ دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ترقی پسند کسانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کے لیے سندھ کوآپریٹو بینک کے لیے فیزیبلٹی اسٹڈی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی بجٹ کی نچلی سطح پر منتقلی اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کو عملی فنڈز کے ساتھ بااختیار بنائے گی، معذور افراد کے لیے مدد میں اضافہ کیا جائے گا، جس میں وظائف میں اضافہ اور نئے بحالی مراکز کا قیام شامل ہے۔مزید برآں سندھ بھر میں یوتھ ڈویلپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، جو ہنر کی تربیت، کیریئر کونسلنگ، اور ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام فراہم کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی سمیت پانچ ٹیکسوں (لیویز) کا خاتمہ مالی بوجھ کو کم کرنے کا مقصد ہے، موٹر وہیکل ٹیکس میں بھی کمی ہوگی اور نیگیٹو لسٹ سسٹم میں منتقلی کے ذریعے سیلز ٹیکس کو آسان بنایا جائے گا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ وکلا، صحافیوں اور اقلیتوں کے لیے فلاحی اور ترقیاتی اقدامات کی مد میں خصوصی گرانٹس بھی فراہم کی جائیں گی۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود ہم نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، صحت اور تعلیم کیلئے زیادہ فنڈز مہیا کیے، ہرسال کی طرح اس سال بھی عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنا حکومت ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال صحت پر 344 ارب روپے خرچ کیے گئے اور این آئی سی وی ڈی میں پورے پاکستان سے زیادہ مرضوں کا علاج کیا گیا، ایس آئی سی وی ڈی کے پاس اسپتالوں کا وسیع نیٹ ورک ہے۔انہوں نے کہا کہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں اس سال 308 لیور ٹرانسپلانٹ کیے گئے، ایس آئی سی ایچ میں بچوں کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، یہ بچوں کی صحت کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے پی ایم سی میں دو سال کے دوران بستروں کی تعداد دگنی کردی گئی ہے، جناح اسپتال دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں سائبر نائف کے ذریعے کینسر کا علاج مفت فراہم کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی صحت کا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ بن گیا ہے، ایس آئی یو ٹی کے پاس پاکستان کا سب سے بڑا ڈائلائسز سنٹر ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بلقیس عبدالستار ایدھی بریسٹ ریڈیولاجی اسپتال کی تعمیر جاری ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے گذشتہ مالی سال کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 1460 اسکیمیں مکمل ہوئیں، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ہیں، جبکہ سیلاب متاثرین کے لیے رہائش کے شعبے میں نمایاں پیشرفت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے چار لاکھ سے زیادہ مکانات مکمل ہو چکے ہیں اور مزید زیر تعمیر ہیں، کل ترقیاتی اخراجات 468 ارب روپے تک پہنچ گئے، جس میں جاری کردہ فنڈز کا 73 فیصد استعمال ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ جامع سالانہ ترقیاتی پروگرام سندھ کی پائیدار ترقی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور سماجی بہبود کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد صوبے بھر میں اقتصادی ترقی اور معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج اور شورشرابہ کیا، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی کا کہنا تھا کہ کہ یہ بجٹ سندھ کا نہیں وڈیرا شاہی کا بجٹ ہے اور اس میں صرف جاگیرداروں اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ بجٹ میں شہری سندھ کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہے۔