اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)پارلیمنٹ کی ذیلی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ راولپنڈی میں ریلوے کی زمین خلاف ضابطہ طور پررہائشی مقاصد کے لیئے لیز پر دی گئی، کمیٹی نے معاملہ تحقیقات کے لیئے نیب کے سپرد کر دیا، جبکہ وزارت ریلوے سے سیاستدانوں اور سابقہ آفیشلز کو دی گئی ریلوےاراضی سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں، کمیٹی نے وزارت ریلوے کو ریلوے مٹیریل چوری ہونے کے معاملے کی انکوائری رپورٹ آڈٹ حکام کو فراہم کرنے کی ہدایت کی جبکہ آئی جی ریلوے پولیس کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
جمعرات کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر نورعالم خان کی صدارت میں ہوا، جس میں وزارت ریلوے کے سال 2017-18 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں ریلوے پولیس کے آئی جی کی جگہ ڈی آئی جی شریک ہوئے،آئی جی ریلوے پولیس کی عدم موجودگی پرکمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا،
کنوینر کمیٹی نور عالم نے کہا کہ آئی جی کیوں نہیں آئے ، قانون قانون ہے، حیرانی کی بات ہے آپ پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیتے،پارلیمنٹ کو سنجیدہ لیں، آئی جی پولیس کو ہیڈ کرتا ہے، ڈی آئی جی صاحب اپنے آئی جی کو بتا دیں، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے نے این ایل سی سے بلاجواز لوکوموٹیوز لیز پر لیئے،کس کی اجازت سے کنٹریکٹ کیا؟ وہ استعمال شدہ ویگنز تھیں،نور عالم خان نے کہا کہ بدقسمتی سے ریلوے کا بہت برا حال ہے،
ان کی پلاننگ ہی نہیں، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کا سالانہ خسارہ 50 بلین کوچھو رہا ہے،سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کا بزنس پلان ہم نے بنایا،وزیر اعظم اور کابینہ سے منظور کرایا،40 بلین کا نقصان پنشنرزکاہے،85 فیصد پنشنرز بائیو میٹرک ویریفیکیشن سسٹم پر ٹرانفسر ہو گئے ہیں،ایک لاکھ پنشنرزکاڈیٹا بائیو میٹرک سسٹم پرشفٹ ہو گیا ہے،کمیٹی نے آڈٹ اعتراض پر دوبارہ محکمانہ اکاﺅنٹس کمیٹی کااجلاس بلانے کی ہداہت کر دی،آڈٹ حکام نے کمیٹی کو راولپنڈی میں ریلوے کی زمین خلاف ضابطہ طور پر رہائشی مقاصد کے لیئے لیز پر دیئے جانے کے معاملے پر بریفنگ دی سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ جو فیصلہ کیاریلوے بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی نے کیا ،قانون اس کی اجازت نہیں دیتا،ابھی تک جگہ 2003 سے خالی ہے،
کمیٹی نے معاملہ تحقیقات کے لیئے نیب کے سپرد کر دیا،اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے ریلوے کا 160 ملین روپے مالیت کا مٹیریل چوری ہونے کے معاملے پربریفنگ دی،نور عالم خان نے کہا کہ ریلوے کی پولیس کیاکر رہی تھی ان کے ہوتے ہوئے کیسے چوری ہوتی ہے،جو بھی آفیشلز اس میں ملوث تھے ان کے خلاف تو کاروائی ہونی چاہیئے ، اکثر ویئر ہاﺅسز سے چیزیں ایسے ہی غائب ہوتی ہیں،نور عالم خان نے ریلوے حکام کو ہدایت کی کہ معاملے کی انکوائری رپورٹ آڈٹ حکام کوفراہم کریں،
نور عالم خان نے کہا کہ اگر ریلوے کی زمینوں پر قبضہ ہوتا ہے تو جو اسٹیشن کو ہیڈ کرتا ہے اس سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیئے ، نیب بھی پٹواری کوپکڑتی ہے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو نہیں پکڑتی،نور عالم خان نے استفسار کیاکہ کیا سیاستدانوں اور سابقہ آفیشلز کو ریلوے کی زمینیں دی گئی ہیں، اس کی فہرست کمیٹی کو بھجوائیں ، اربوں کی پراپرٹی آپ لاکھوں میں دے دیتے ہیں۔