پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں موت بٹنے لگی

شہباز اکمل جندران۔۔۔

لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی امراض قلب کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔پی آئی سی میں صرف لاہور اور پنجاب ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں سے بھی دل کے مریض لائے جاتے ہیں۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
امراض قلب کا یہ ہسپتال، علاج معالجے۔جعلی ادویات کے استعمال۔غیر معیاری ادویات کے استعمال سے ہلاکتوں،دنگے فساد اور ڈاکٹروں کی ہڑتال جیسے واقعات کے حوالے سے اکثر اوقات خبروں میں نظر آتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اکثر اوقات پی آئی سی میں نامناسب علاج معالجے اور ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث مریضوں کی اموات کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو تحریری شکایات بھی وصول ہوتی رہتی ہیں۔

ایسے ہی اداروں میں پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن بھی شامل ہے۔پی آئی سی کی پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کے ساتھ 16مارچ 2012کو رجسٹریشن ہوئی۔جس کے بعد ادارے کو ہسپتال کے خلاف کئی ایک درخواستیں موصول ہوئیں۔جن میں زیادہ تعداد ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث مریضوں کی اموات کے حوالے سے تھیں۔

ایسے درخواست گزاروں میں لاہور کے غلام جیلانی نے مریض کی ہلاکت۔ خضر حیات نے والدہ کی ہلاکت۔شیخوپورہ کے حامد علی پاشا کے مریض۔لاہور کینٹ کے محمد یاسین جوئیہ کے مریض کی بائی پاس کے بعد ہلاکت۔سلمان زاہد کے مریض۔سید یاسربخاری کی والدہ کی ہلاکت۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
عبید الرحمن کے مریض کے نامناسب علاج معالجے۔طیب ندیم کے مریض کی نامناسب دیکھ بھال۔حافظ آباد کے عاصم نصراللہ اور ننکانہ صاحب کے اکبر علی و دیگر کے مریضوں کی ہلاکتوں کی درخواستیں شامل ہیں۔