اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات تعطل کا شکار ہیں ،بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 کے اقدامات واپس نہ لئے جانے تک تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے،پاک بھارت تعلقات بہتر نہ ہونے کا نقصان دونوں ممالک سمیت وسطی ایشیا کو بھی ہے،تعلقات بہتر ہونے سے پورے خطے کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں،افغانستان میں انتشار کی صورت میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گا، افغانستان میں انتشار کی وجہ سے پاک تاجک تجارت بھی متاثر ہوگی اور دہشت گردی بڑھ جائے گی، پاکستان اور تاجکستان کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں سے خطرہ ہے، تاجکستان کے ساتھ تجارتی روابط مضبوط ہونگے، گوادر کے ذریعے پاکستان تاجکستان تجارت ہوسکے گی۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور تاجکستان کے ساتھ کئی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اور دو طرفہ تعلقات کو مزید استحکام دیا جائے گا، اسلام کو شدت پسندی اور دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ان دونوں وجوہات کی وجہ سے اسلاموفوبیا پھیل رہا ہے جبکہ تاجک صدر نے کہا کہ تاجکستان پاکستان کو اہم برادر ملک سمجھتا ہے،پاکستان کے ساتھ تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے خواہاں ہیں،امن وامان سے متعلق پاکستان کے اقدامات کو سراہتے ہیں، دورہ پاکستان میں ہونے والے معاہدوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون مزید بڑھے گا۔ بدھ کوپاکستان اور تاجکستان میں مختلف معاہدوں پر دستخط کی تقریب ہوئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان اور تاجکستان کے صدر امام علی رحمان بھی موجود تھے۔ تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے جبکہ وزیر اعظم عمران خان اور تاجکستا ن کے صدر امام علی رحمان نے یاداشتوں پر دستخط کیے۔
اس موقع پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمن کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ تاجکستان کے صدر کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان تجارت بہت اہمیت رکھتی ہے اور تجارت کے شعبے میں دونوں ممالک کے روابط مضبوط ہوں گے جس میں گوادر کنیکٹیوٹی بہت اہمیت رکھتی ہے، جبکہ تاجکستان کے ساتھ تعلیم اور دفاع کے شعبے میں بھی معاہدے کیے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تاجکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں، اس کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور تاجکستان کو مستقبل کے حوالے سے کئی مشترہ چیلنجز کا سامنا ہے، تاجکستان سے تجارت اور کنیکٹیوٹی بڑھانے کے لیے افغانستان میں امن بہت ضروری ہے، دونوں ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ امریکا کے انخلا تک افغانستان میں سیاسی تصفیہ نہ ہوا تو کہیں سوویت یونین کے چھوڑ کر جانے کے بعد والی صورتحال نہ پیدا ہوجائے جو دونوں ممالک کے لیے بہت نقصان دہ ہوگی
۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انتشار پھیلنے کی صورت میں ہماری تجارت بھی متاثر ہوگی اور دہشت گردی بڑھنے کا بھی خدشہ ہے، ابھی بھی پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور استحکام نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ افغانستان میں سیاسی تصفیہ ہو تاکہ جب امریکا وہاں سے جائے تو استحکام ہو اور ایسی متفقہ حکومت ہو جو اس انتشار کو روک سکے، اس لیے دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان میں سیاسی تصفیے کی کوشش کی جائے گی ۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور تاجکستان کو جو دوسرا مشترکہ چیلنج درپیش ہے وہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، تاجکستان کا بھی پورا پانی گلیشیئرز سے آتا ہے جبکہ پاکستانی دریاں میں بھی 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، اس لیے ہم نے عالمی سطح پر اس حوالے سے زیادہ آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی فوائد اس وقت حاصل کر سکتا ہے جب خطے میں امن ہو، بھارت کی طرف سے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یکطرفہ اقدام اٹھائے جانے کے بعد ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارت معمول پر لانا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ کشمیریو ں کی قربانیوں کے ساتھ غداری ہوگی، لہذا بھارت جب تک یہ اقدامات واپس نہیں لیتا ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے جس کا نقصان ان دونوں ممالک کے علاوہ پورے وسطی ایشیا کو ہوگا ۔
اس موقع پر امام علی رحمن نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سے آج کی ملاقات روایتی دوستانہ ماحول میں ہوئی جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا، جبکہ تاجکستان دونوں ممالک کے اعلی وفود کے درمیان ملاقات سے مطمئن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفود کی سطح پر تعمیری بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے بین الجہتی تعلقات پر گفتگو ہوئی اور کئی دوطرفہ معاملات پر نکتہ نظر میں مماثلت پائی گئی ۔