کراچی(رپورٹنگ آن لائن)وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اس ملک میں معیشت کی تباہی کا سبب کرونا ضرور ہے، مگر اصل وجہ میں وہ پی ٹی آئی ہے، ایکسپورٹ ہماے دور میں پروان چڑھی مگر ان ماہرین کی حکومت میں ملک کی کشتی ہی ڈوب رہی ہے، یہ واحد حکومت ہے جس نے گذشتہ سال میں تین بجٹ پیش کئے، ممکن ہے کہ اس سال میں تین نہیں تو کم ازکم وہ دو بجٹ ضرور پیش کریں گے، 18 ویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ نے محکمہ لیبر کے 16 قوانین بنائے جو کسی اور صوبے نے نہیں بنائے ہیں۔
یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کراچی سے دہشت اور وہشت گردی کا دور ختم ہوا، ورنہ اس شھر میں تو کوئی کام نہیں کرسکتا تھا روز لوگ مارے جاتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز سندھ اسمبلی میں بجٹ 2020-21 پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ میں تو اتنے روز سے جاری اس بجٹ بحث پر ہونے والی تقاریر میں انتظار کررہا تھا کہ کوئی اپوزیشن کا نمائندہ سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کو اچھا عمل ٹھہراتے ہوئے وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں سے بھی مطالبہ کریں گے کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں لیکن افسوس کہ کسی بھی اپوزیشن ارکان نے ایسا نہیں کیا۔
سعید غنی نے کہا کہ اس ملک میں معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ کرونا وائرس نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کو مارچ میں آیا ہے لیکن اس ملک کی معیشت کی کشتی تو اس سے پہلے ہی ڈوب چکی ہے، انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی اس وقت جی ڈی پی 5.7 فیصد تھی، جو پچھلے سال پی ٹی آئی کی حکومت کے دعوے کے مطابق 3.3 رہی لیکن حقیقت میں یہ صرف 1.9 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو چوروں، ڈکیتوں اور کرپشن کی حکومت قرار دینے والوں کی حکومت کے مقابلے موجودہ حکومت کی ایکسپورٹ کا موازنہ ہی کرلیا جائے تو حقائق سامنے آجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صرف فوڈ آئٹم ہمارے دور سے قبل ڈیڑھ ارب کی امپورٹ ہوتی تھی ہماری حکومت کے آنے کے بعد یہ 50 کروڑ کے ایکسپورٹ پر چلی گئی تھی اور آج یہ جس حال پر ہے، اس سے اس ملک کے سلیکٹیڈ حکمرانوں کے معیشت کے دعوے کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں سیلاب آئے، دہشتگردی عروج پر رہی مگر ہمارے دور میں مزدور کی تنخوائیں بڑھائی گئی اور آج صرف کرونا کا سہارا لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ وفاق اور دیگر صوبوں نے نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران حکومت میں آنے سے قبل دعوے کرتے رہے کہ ہم جب حکومت میں آئیں گے تو چٹکی بجا کر سب ٹھیک کرلیں گے اور آج صرف ان کے اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار دیکھیں تو ان پر کالک ملنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سعید غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا تو ایک ہزار ارب روپے ذائد کا ٹیکس کیسے وصول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واحد حکومت ہے جو سال میں تین بجٹ پیش کیئے ممکن نہیں کہ اس سال میں تین نہیں تو دو بجٹ ضرور پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واحد نااہل حکومت ہے، جس میں ہر فرد بلکہ ان کے اپنے لوگ بھی رو رہے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ تعلیم کی بات ہوتی ہے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ڈاکٹرز کا مسئلہ ہو یا تاجر کا سعید غنی آجاتا ہے۔ بورڈ اور یونیورسٹی کے وی سیز کا معاملہ ہو تو سعید غنی غائب ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو پتہ نہیں میرے پاس یہ شعبے ہے ہی نہیں اور الزام مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ ان کوپتہ نہیں کہ محکمہ تعلیم میں صوبہ سندھ نے کرونا وائر س کے بعد جو اقدامات کئے اسنے پورے ملک کو لیڈ کیا۔ اس وقت نویں اور بارہویں کے بچوں کو پروموٹ کرنے میں بھی ہم نے پہل اور سب کو راستہ دیا ہے۔ کیمبریج کے معاملے کو حل کرنے میں بھی کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں انہوں نے کہا کہ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم معاملات پر اسٹیک ہولڈرز کو بٹھاکر سنتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے، جس نے 18 ویں ترمیم کے بعد صرف محکمہ محنت میں 16 نئے قوانین بنائے، جو کسی صوبے نے نہیں بنایا۔ہمارے صوبے کسانوں کی یونین رجسٹر ڈہورہی ہیں، خواتین ہاری عورتوں کے امیج کو اوپر لانے پرہم کام کررہے ہیں ان کو مزدور کا درجہ ہم نے دیا۔ہم فیکٹری مزدوروں کی طرح رکشہ چلانے والے اور دیگر مزدوروں کو سوشل سیکورٹی نیٹ میں لارہے ہیں اور اس کے لئے ایک اسمارٹ کارڈ لاکر ان کو اس کے ذریعے دیگر سہولیات دینے کہ تیاریاں کررہے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت کراچی سمیت صوبے بھر میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب بنا ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھی موجودہ نااہل اور ناکام وفاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ فرنس آئل کی کمی اور گیس کی فراہمی نہ ہونے کے باعث اس نے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھایا ہے اورموجودہ نااہل حکمرانوں کی جانب سے پیٹرول کی درآمد نہ کرنے کے خطا کے باعث ملک میں پیٹرول کی قلت کا سبب ہوئی، جس سے عوام کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے بجلی اور گیس کے بل نہ لینے کا نہیں کہا بلکہ کہا کہ موجودہ حالات کے تحت 200 یونٹس بجلی قاور 2000 تک کی گیس استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین سے بلز دو ماہ لیٹ لیے جائیں۔
انہو ں نے کہا کہ آج جو حالات ہیں اس سے لوگ مشکلات کا شکار ہیں اس لئے میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ دو سو یونیٹس بجلی اور دو ہزار تک کی گیس استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین کے ساتھ ساتھ مساجد، مدارس، مندروں، چرچ سمیت دیگر مذہبی اداروں کے بل معاف کیے جائیں، کیونکہ وہ چندوں پر چلتے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ ای او بی آئی اور ورکرز ویلفئیرز سمیت محکمہ لیبر کے شعبے جو 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہونے تھے مگر آج تک نہیں ہوئے اور اس پر وفاق نے سراسر بددیانتی کی ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ وفاق صوبوں کو نہیں بلکہ صوبے وفاق کو چلاتے ہیں۔ہر آدمی اٹھاریں ترمیم پربات کرتا ہے، لیکن ان پتہ کچھ نہیں ہے۔اٹھارہ ترمیم نے صرف صوبے نہیں وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو مضبوط کیا ہے۔آپ کہتے تھے آٹھ ہزار ارب جمع کریں گے مگر نا اہلی خود کی تو قصور وار صوبے کو ٹھرایا جاتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ یلو اور ریڈ لائن منصوبے ایڈوانس اسٹیج پر ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں ماضی میں کبھی نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے کہا ایک کروڑ نوکریاں اور گھر دیں گے۔انہوں نے نوکری یا گھر کسی ایک کو تو نہیں دیا لیکن ہزاروں افراد کو بے روزگار اور بے گھر ضرور کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کا بیڑہ غرق کرنے کا سلسلہ مسلم لیگ نون کے دور میں ہوا اس وقت آج کے صدر پاکستان عارف علوی اور اسد عمر سمیت دیگر کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں سب کو پتا لگ جائے گا کہ انہوں نے اسٹیل مل کے ملازمین سے کیا کیا وعدے کئے اور خود عمران خان نے کیا دعوہ کیا تھا۔
اسد عمر تو یہاں تک کہہ چکے تھے کہ اگر ہماری حکومت نے اسٹیل ملز کے ملازمین کے لئے کچھ نہ کیا تو میں حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ان ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ سعید غنی نے کہا کہ اسٹیل ملز کی زمین پر انکے عالمی جگادڑیوں کی نظریں ہیں لیکن ہم ان کو اسٹیل مل کی زمین ہضم کرنے نہیں دیں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ سندھ کے رہائشی نہیں مگر ڈومیسائل صرف اس صوبے کے لوگوں کا حق کھانے کے لیے بناتے ہیں ان کے خلاف وزیر اعلی نے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی بنادی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گذشتہ پچاس سالوں کی تحقیقات کی جائے۔ سعید غنی نے کہا کہ حسنین مرزا نے بڑی باتیں کرتے ہیں وہ بتائیں کہ ان کے والد ذوالفقار مرزا نے قسمیں کھائیں، قرآن اٹھائے مگر آج وہ جن کے ساتھ بیٹھے ہیں ان پر کیا کہا جائے۔ مرزا کہتے تھے تن پر کپڑے زرداری کے ہیں اب ان کا ظرف ہے جو کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حسنین مرزا پر تو نیب کا ریفرنس بنا ہوا ہے نیب ان کو گرفتار نہیں کرتا لیکن اسپیکر صاحب آپ پر ریفرنس تھا آپ کو گرفتار کیا گیا، فریال ٹالپور پر کوئی ریفرنس نہیں تھا وہ گرفتار ہوجاتی ہیں، خورشید شاہ، شرجیل میمن سمیت کئی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو بغیر ریفرنس کے گرفتار کرلیا جاتا ہے تو پھر ہم اس کو نیب کا دہرا معیار یا نیب نیازی گٹھ جوڑ نہ کہیں تو کیا کہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر الزام ہے کہ سعید غنی وزیر تعلیم ہیں اور صحت پر بات کرتے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم صحت، تجارت او رخزانے کے بھی وزیر ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے ہیں تو وہ کہتے ہیں ٹی وی پر پتا چلا کہ ڈالر مہنگا ہوگیا ہے۔سعید غنی نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمیں کہتے ہیں کہ بارہ سال سے ان کی حکومت ہے اور ہم نے اس صوبے کے لئے کچھ نہیں کیا۔2008 سے ہمارے نمبر بڑھ رہے ہیں ان کے سکڑتے جارہے ہیں اللہ کرے گا 2023 اور 2025 میں بھی ہماری حکومت ہوگی اور کہتے رہیں گے کہ اتنے سال سے ان کی حکومت ہے اور ان کی تعداد کم ہوکر دو ست چار ارکان تک ہی رہ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا احتساب کسی اور نے نہیں عوام نے کرنا ہے اور عوام آپ لوگوں کا احتساب جس طرح کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 49 ہزار چھوٹے بڑے اسکولز ہیں اور کوئی یہ توقع کرے کہ 12سال میں یہ سن ٹھیک ہوجائیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ جس طرح ماضی میں ان کی حکومت میں ایک ایک گاؤں میں ایک اسکول کی بجائے 57 اور اس سے زائد اسکول اپنی انا کے لئے بنائے گئے وہاں بچے تو نہیں ہوں گے البتہ گدھے ضرور ہوسکتے ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ2016 میں ایک نجی چینل نے میرے حلقہ میں ایک اسکول میں گدھے کی تصاویر دکھائی جبکہ وہ اسکول سندھ حکومت کا نہیں بلکہ لوکل گورنمینٹ کا ہے، ایک ڈسپنسری دکھائی گئی وہ بھی ڈی ایم سی کی ہے اور اس حوالے سے یوسی کی سطح پر متعدد بار تحریری طور پر بھی ڈی ایم سی کو آگاہ کیا گیا جبکہ اس اسکول کے 2 منٹ کے فاصلے پر ایک سرکاری اسکول ہے، اس کو کوئی نہیں دکھاتا۔ سعید غنی نے چنیسر گوٹھ کی اسکول کی تصاویر لہرا دیں بولے یہ 2008 میں ہماری حکومت نے بنایا۔ سعید غنی نے کہا کہ کراچی کی باتین کہی جاتی ہیں کہ بتائیں ہم نے کراچی کو کیا دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کراچی سے دہشت اور وہشت گردی کا دور ختم ہوا ہے، ورنہ اس شہر میں تو کوئی کام نہیں کرسکتا تھا۔روز لوگ مارے جاتے تھے۔ یہ نہیں چاہتے کہ یہ شہر ترقی کرے۔بڑی مشکل سے الطاف حسین سے جان چھوٹی ہے لیکن ایم کیو ایم والوں نے الطاف کولیڈر ماننا چھوڑ دیا مگر اس کی سیاست اور وہ جو کہتے تھے اس کو انہوں نے ابھی تک نہیں چھوڑا۔ ان کی سیاست آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ اردو بولنے والوں کو وہ ڈرا ڈرا کر سیاست کرتے رہو۔
اگر یہ سیاست انہوں نے چھوڑ دی تو لوگ انکو مانیں گے نہیں اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے تو آپ لوگوں کی خدمت کریں۔