اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن) پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ا نتقال کرگئے، انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ اسلام آ باد کے ایچ ایٹ قبر ستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، ڈاکٹر عبدالقدیر کی عمر 85سال تھی، وہ کچھ عرصے سے علیل تھے، انہیں طبیعت خرابی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور صبح 7 بجے انتقال کرگئے،ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد کے احاطے میں ادا کی گئی، نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، نماز جنازہ میں کابینہ کے اراکین ارکان پارلیمنٹ ، عسکری حکام اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ،
اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ، صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان ، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو ، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق ، وفاقی وزرائ،آرمی چیف ،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیفس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ا نتقال کرگئے ، ڈاکٹر عبدالقدیر کی عمر 85سال تھی۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
انہیں طبیعت خرابی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور صبح 7 بجے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد اسلام آ باد کے ایچ ایٹ قبر ستان میں خاک کر دیا گیا ۔ یہ پاکستان کی واحد شخصیت اور پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے، انہیں 2 بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جبکہ ہلالِ امتیاز بھی عطا کیا گیا ۔ واضح رہے کہ محسن پاکستان، قومی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگست 26 کو عالمی وبا کورونا وائرس کا شکار بھی ہوئے تھے جس کے بعد ان کی آکسیجن پائپ لگی تصویر منظرِ عام پر آگئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہ تصاویر منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور تمام اہلِ وطن کی جانب سے ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔
اس حوالے سے قومی سائنسدان کے ترجمان کی جانب سے جاری کیئے گئے بیان میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر 26 اگست کو کے آر ایل اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں 28 اگست کو ملٹری اسپتال میں کوویڈ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کے تیزی سے صحت یاب ہونے کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947 میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976 میں انہوں نے انجینیرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔
یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ڈاکٹر قدیر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیون میں پڑھنے کے بعد 1976 میں واپس پاکستان آگئے۔مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا اور بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ۔انیس سو چھتیس میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ۔کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
اسی ادارے نے 25 کلو میٹر تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے۔ڈاکٹر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے تھے لیکن 19 دسمبر 2004 کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھا ۔ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔
چودہ اگست 1996 میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے سیچٹ کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے۔