بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)”نکی ایشیا” نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: “مسٹر جاپان نے ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے سے انکار کر دیا، اور یہ صحیح ہے”۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور جاپان تجارتی مذاکرات کر رہے ہیں، لیکن” ایشبا حکومت” کا رویہ توقعات سے زیادہ سخت ہے، اور یہ ایک صحیح اقدام ہے۔ یہ انہوں نے” ایبے حکومت” کے تجربے سے سیکھا ہے، جو ٹرمپ کے سامنے زیادہ جھک گئی تھی، لیکن انہیں کسی فائدے کے بدلے میں کچھ نہیں ملا۔
ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے کا مذاق اس وقت شروع ہوا جب پچھلے مہینے 25 تاریخ کو ہیگ میں نیٹو سمٹ کے دوران ایک صحافی نے ٹرمپ سے اسرائیل اور ایران کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ان کے سخت الفاظ کے بارے میں پوچھا۔ اس موقع پر موجود نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹ نے کہا: “دادا ابو کو کبھی کبھی سخت الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔” رات کو جب صحافیوں نے ٹرمپ سے روٹ کے “دادا” والے خطاب کے بارے میں پوچھا تو ٹرمپ نے کہا: “میرے خیال میں وہ مجھے پسند کرتے ہیں… ‘دادا، آپ میرے دادا ہیں’—روٹ نے یہ الفاظ بہت پیار سے کہے۔” یہی اس مذاق کی اصل کہانی ہے۔
چینی کہاوت ہے کہ اگر کوئی حد سے زیادہ مذاق کرے تو کہا جاتا ہے: “تم کس قسم کا بین الاقوامی مذاق کر رہے ہو ؟” اگرچہ مذکورہ واقعے کے فریقین نے اسے صرف مذاق قرار دیا، لیکن غور کریں کہ امریکیوں نے کبھی یورپ کو “دادا” کہنے والا مذاق کیوں نہیں کیا؟ نیز، نیٹو سربراہی اجلاس جیسے بین الاقوامی فورم پر اگرچہ ماحول دوستانہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ کوئی بار یا گولف کلب نہیں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کی بات کرے۔ یہ “دادا والا مذاق” اس لیے سرخیوں میں آیا کیونکہ اس کے پیچھے چھپے مفاہیم اور بولنے والے کے ذہنی رویے پر غور کرنا لازمی ہے۔
میرے نزدیک، یہ مذاق محض یورپ کی جانب سے امریکہ کی خوشامد کے لیے “عزت کی قربانی” کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یورپ کی سلامتی، معیشت اور دیگر شعبوں میں امریکہ پر انتہائی انحصار کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جس سے یورپ اور امریکہ کے درمیان طاقت کا عدم توازن عیاں ہوتا ہے۔ یہ منظر مجھے 10 ویں صدی عیسوی کے اوائل کی یاد دلائے بغیر نہیں رہ سکتا، جب چینی علیحدگی پسند جنگجو شی جنگ تھانگ نے بادشاہت کے خواب سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہو جن خاندان کی حکومت قائم کی، اس نے خود کو خانہ بدوش قوم چھیتان کے بادشاہ کا ” شاہی بیٹا ” کہا اور اپنی کچھ زمین چھیتان کے حوالے کر دی تاکہ چھیتان کی پناہ اور عارضی سلامتی حاصل کی جا سکے ۔
آج یورپی رہنما امریکہ کے سامنے اسی طرح عاجزی دکھا رہے ہیں، جو شی چنگ تھانگ کی طرح ذلت آمیز ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یورپی تہذیب کے گہرے بحران کو بھی ظاہر کرتا ہے—یہ وہ براعظم جس نے روشن خیالی تحریک اور صنعتی انقلاب کو جنم دیا تھا، آج سلامتی اور دفاعی خودمختاری کے معاملے میں مکمل طور پر دوسروں کا محتاج بن چکا ہے، اور کافی، دھوپ اور چھٹیوں کے نرم و نازک دام میں اس طرح گرفتار ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی سیاسی اشرافیہ اس طرح کی رسوائی اور “امریکی پرست رویے” کو معمول سمجھتی ہے۔
یورپ کا امریکہ پر انحصار حد سے کہیں زیادہ ہے، اور یورپی باشندے “امن کے لیے امریکہ پر بھروسہ” کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس انحصار کی قیمت بہت بھاری ہے—یورپ کو سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف میدانوں میں امریکی حکمت عملی کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یورپی معاشرے کو اس ” ذلت” کی عادت ہو چکی ہے:ایسے میں جب ان کے رہنما بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سر جھکائے پھرتے ہیں، تو یورپی لوگ اس بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں کہ دھوپ سینکنے کے لئے چھٹیوں پر کہاں جانا ہے، اور کس برانڈ کا نیا ہینڈ بیگ فروخت ہو رہا ہے ، اور اس طرح کی قومی سیاسی بے حسی اور لذت پرستی یورپ کی تزویراتی خودمختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یورپ کے پاس راستہ موجود ہے، لیکن اس کے لیے ہمت اور دوراندیشی درکار ہے۔ سب سے پہلے، یورپ کو امریکہ پر انحصار ختم کرنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یورپ کو ایک “ذہنی نشاۃ ثانیہ” کی ضرورت ہے—صرف عیش و آرام کی لت سے چھٹکارا پا کر ہی یورپ دوبارہ بین الاقوامی احترام حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی توہین کے بعد اگرچہ کچھ یورپی سیاست دانوں نے آنسو بہائے ہیں اور کچھ نے زیادہ خود مختار یورپ کی بات کی ہے، مگر جب اناپرست ٹرمپ خوش ہو کر کوئی اچھا رویہ دکھائے گا، یا امریکہ اگلے انتخابات میں کوئی نیا “ابو” منتخب کر کے یورپ کو کوئی چھوٹی سی مٹھائی پیش کرے گا، تو کیا یورپ پھر سے “ابو واپس آ گئے” کہہ کر خوشی سے نہال نہیں ہو جائے گا؟ اور سب سے آسان سوال – کیا امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس واشنگٹن کو یورپ جیسی فربہ بھیڑ کو چھوڑنے دے گا؟ مشکل ہے!
تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ عزت کی قربانی کی قیمت پر حاصل کردہ سلامتی کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔ آج یورپ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: کیا وہ امریکہ کا “فرمانبردار بچہ” بن کر رہے گا یا ایک باوقار خودمختار طاقت بنے گا؟ پہلا راستہ دوسروں کے سائے میں زندگی گزارنے کے مترادف ہے، جبکہ دوسرا راستہ مشکل ضرور ہے، لیکن یورپ کی عظمت کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یورپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی سیاست کے جنگل میں کوئی قوم کسی دوسرے پر انحصار کر کے حقیقی سلامتی اور عزت حاصل نہیں کر سکتی۔ صرف خود انحصاری ہی “شاہی بیٹا” جیسی تاریخ کو دہرانے سے بچا سکتی ہے۔