سندھ ہائیکورٹ

لاپتہ افراد کیس : سندھ ہائیکورٹ کا پولیس کی کارکردگی پر اظہار برہمی

کراچی(رپورٹنگ آن لائن)سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کورنگی سے لاپتہ ہونے والے شہری عمران اور ظہیر کی واپسی پر عدالت نے پولیس کی رپورٹ کی بنیاد پر درخواست نمٹا دی، تاہم دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ شہری فضل احمد کے بھائی کے مطابق وہ افغانستان چلا گیا ہے۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے استفسار کیا کہ بیان کہاں ہے؟ اور نشاندہی کی کہ بیان میں صرف بچوں کے افغانستان میں ہونے کا ذکر ہے، شہری کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔بدھ کوسندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

پولیس افسر نیاپنی رپورٹ میں بتایاکہ کورنگی سے لاپتا شہری عمران اور ظہیر گھر واپس آگئے۔ عدالت نے پولیس کی رپورٹ پر درخواست نمٹا دی۔ عدالت نے دیگر لاپتا افراد کی عدم بازیابی اور پولیس کی کارکردگی پر اظہار تشویش کیا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ لاپتا نوجوان کے بھائی نے بیان دیاہے کہ اس کا بھائی افغانستان چلا گیا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہاں ہے بیان دکھائیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس بیان کے مطابق لاپتا شہری فضل احمد کے بچے افغانستان میں ہیں۔

عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ لاپتا شہری بھی افغانستان گیا ہوا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے آپ نے عدالت کا وقت کیوں ضائع کیا۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے کراچی یونیورسٹی سے بی کام کیا ہوا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کونسی زبان میں بی کام کیا ہوا ہے، آپ کو اردو پڑھنا نہیں آتی۔ کس نے بیان ریکارڈ کیا، اگر آپ نے بیان کیا تو آپ کے دستخط کیوں نہیں ہیں۔

جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئے کہ ان کو تو ضابطہ کارروائی کا بھی نہیں پتہ۔ سرکاری وکیل بتائیں کہ اس بیان کی کیا حیثیت ہے ،جس پر بیان قلمبند کرنے والے کے دستخط نہیں۔ اس کو احساس نہیں کہ اس کی قانونی، شرعی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے۔ حبیب احمد ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ سب کو پتہ ہے لکھتا کون ہے اور دستخط کون کرتا ہے۔ بیان ریکارڈ کرنے والے افسر کے دستخط ہونے چاہئیں تاکہ پتہ لگ سکے کہ بیان کس کے سامنے ہوا۔ اے اے جی نے موقف اپنایا کہ لاپتا افراد کے کیس کی سنگینی کا احساس ہونا چاہئے۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر لاپتا شہری فضل احمد کے بارے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے لاپتا فواد کا سی ڈی آر رپورٹ جمع نہ کرنے پر ایس ایس پی سینٹرل کو طلب کر لیا۔ بتایا جائے کہ لاپتا شہری فواد کا سی ڈی آر کہاں ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ نمبر کی تفصیلات کیلئے حکام کو خط لکھا ہے۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئے کہ ڈیڑھ ماہ پہلے خط لکھا ابھی تک تفصیلات نہیں مل سکی۔ عدالت نے لاپتا 2 بھائیوں اقبال اور حسن کی رپورٹ طلب کرلی۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ دونوں بھائیوں کا گمشدگی سے قبل موبائل لوکیشن قصور کی آئی ہے۔

اس کے بعد اب تک موبائل نمبرز بند ہیں۔ لاپتا شہری مصور شاہ کی والدہ نے عدالت میں روتے ہوئے کہا کہ ہم انویسٹیگیشن ٹیم کے پاس گئے تو دھمکیاں دی گئیں۔ ہمیں کہا گیا درخواست عدالت میں کیوں دی اب بیٹا بھی واپس نہیں ملے گا۔ میرے بیٹے کو 4 ماہ قبل گھر سے اٹھایا گیا تھا۔ ہمیں اے ایس آئی محمد خان اور توفیق نے دھمکیاں دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو جس نے دھمکیاں دیں ان کے نام کے ساتھ تحریری درخواست دیں۔ عدالت نے درخواستوں کی سماعت 4 ہفتوں تک ملتوی کردی۔