ناجائز قبضے 115

زمینوں سے ناجائز قبضے ختم کروانے کے نئے نظام کا جائزہ

————————————
سابق ممبر پنجاب بورڈ آف ریونیو میاں محمد زمان وٹو

اوکاڑہ
( شیر محمد)حکومت پنجاب نےزمینوں پر ناجائز قبضے کے خاتمےکا قانون The Punjab Protection of Ownership of Immovable Property Ordinance 2025 ایک اچھےمقصد کے پیش نظر نافذ کیا ہے- اس کی صوبائی سطح پر واقعی اشد ضرورت تھی کیونکہ اس سے ملتا جلتا ایک وفاقی قانون اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔

اس قانون کا بنیادی مقصدکمزور افراد، بیواؤں اور یتیموں کو مؤثر اور فوری ریلیف فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی سی کی سربراہی میں تشکیل کردہ Dispute Resolution Committee کا بہت اہم کردار ہے۔ ڈی پی او بھی اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ یہ کمیٹی تنازعے کو amicably حل کروا سکتی ہے یا محکمہ مال کو زمین کی تقسیم نوے دن میں مکمل کرنے کا حکم دے سکتی ہے یا پھر ریفرنس پراپرٹی ٹربیونل کو بھیج سکتی ہے۔ ٹربیونل ہائی کورٹ کے سابقہ/ریٹائرڈ جج یا ریٹائرڈ/سابقہ ڈسٹرکٹ سیشن جج پر مشتمل ہو گا۔

متذکرہ بالا کمیٹیوں کی کارکردگی کی کے بارے میں لوگ مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں- اس پورے نظام کی کامیابی کی چابی اس کمیٹی کے پاس ہے۔ میں نے اپنے تئیں کچھ اضلاع سے ان کی کارکردگی کا فیڈ بیک لیا۔ جو کہ مجموعی طور پر حوصلہ افزاء ہے تاہم کچھ اضلاع سے اس کی کارکردگی کے بارے میں اطلاعات کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہیں- چونکہ ڈی پی او صاحبان کی لینڈ ریونیو ایکٹ، ضابطہ دیوانی اور دیگر قوانین پر اتنی orientation نہیں ہوتی تو وہ اپنی مضبوط پوزیشن کی وجہ سے کمیٹی کی proceedings کو مذکورہ قانون کی دفعات ۸ اور ۹ کے تحت انتظامی اور انسدادی رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے تاریخیں پڑ رہی ہیں اور سائلین میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ سیاسی مداخلت کی بھی خبریں ہیں۔ کچھ ایسے سیدھے سیدھے کیسوں کی سماعت نہیں ہو پارہی جن میں واحد ملکیت کھیوٹ پر ناجائز قبضہ ہےاور کمیٹی اس میں کاروائی سے گریزاں ہے۔اس بات کا اندیشہ ہے کہ سائیلین مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے۔
اس سے مجھے ایک لطیفہ یاد آگیاہےکہ ایک گرو سے کسی نے پوچھا کہ گرو جی چیلے بہت زیادہ ہو گئے ہیں تو اس نے ترت جواب دیاکہ ‘بھک مردے آپے ٹر جان گے،
ایسی صورتحال انتہائی خطرناک ہو گی۔ ڈی سی صاحبان کو قانون کی حد میں رہتے ہوئے اپنا ایک مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ماضی کے تجربات سے ایک بات تجربہ شیئر کرتا چلوں۔ جب جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا تو NRB کا ادارہ قائم کیا گیا جس نے ضلعی حکومتوں نئے نظام پر کام شروع کیا۔ اور سب سے اہم ایجنڈا میجسٹریسی نظام کا خاتمہ تھا۔ مرحوم شائیگان شریف ملک NRB کے کنسلٹنٹ تھے۔ جب ہم میجسٹریسی نظام کے دفاع کے لیے اپنا کیس لے کر گئے تو میجسٹریسی پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ میجسٹریٹ صاحبان پولیس مقابلوں کی میرٹ پر انکوائری نہیں کرتے۔ لہذا نئے قانون کے تحت ڈی سی صاحبان کو اپنے ادارے کی خاطر میرٹ پر اور independent mind کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں