محمد اشرف 19

حویلی لکھا دل دہلا دینے والا سانحہ

اوکاڑہ ( شیر محمد)جس نے پورے علاقے کو غم کی لپیٹ میں لے لیا۔ محمد اشرف مہر اور محمد رمضان مہر کے معصوم بچے، جو روز کی طرح اسکول جانے کے لیے خوشیاں بانٹتے ہوئے گھر سے نکلے، کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر بن جائے گا۔

چوک شہیداں کے قریب ایک بے قابو مزدا گاڑی نے چند لمحوں میں سب کچھ چھین لیا۔ اشرف کی پھول جیسی بیٹی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی، جبکہ رمضان کا بیٹا شدید زخمی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا، مگر چند لمحوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بھی اپنے خالق سے جا ملا۔

جو قدم صبح کو معصوم قہقہوں کے ساتھ گھر سے نکلے تھے، وہی قدم اب والدین کی آنکھوں کے سامنے درد، آہ و بکا اور ماتم میں ڈوب گئے۔ والدین کی دنیا لمحوں میں ویران ہو گئی۔یہ سانحہ محض ایک ٹریفک حادثہ نہیں بلکہ انتظامی غفلت، لاپرواہی اور شہری حفاظت کے فقدان کی کھلی علامت ہے۔

چوک شہیداں برسوں سے بے ہنگم ٹریفک، ریڑھی بانوں کی رکاوٹوں اور مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے جان لیوا مقام بن چکا ہے، جہاں ہر لمحہ حادثے کا خطرہ منڈلاتا ہے۔ افسوس کہ وہاں نہ ٹریفک وارڈن موجود ہیں اور نہ انتظامیہ نے شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔

اس کے ساتھ والدین کی ذمہ داری بھی ناقابل نظر انداز نہیں۔ کم عمری میں بچوں کو موٹر سائیکل دینا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قدم حادثات کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ والدین کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ناتجربہ کار ہاتھوں میں گاڑی دینا بچوں کو کس قدر خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

نتیجتاً بدانتظامی، لاپرواہی اور غفلت کی بھینٹ دو معصوم جانیں چڑھ گئیں—وہ ننھے فرشتے جو ابھی زندگی کے پہلے لفظ بھی مکمل نہ کر پائے تھے۔اللہ تعالیٰ ان معصوم بچوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں