اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست پرسماعت کی۔درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ، اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت میں پیش ہوئے۔صلاح الدین ایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ عدالت نے فرانزک کمپنیوں کے نام اٹارنی جنرل سے مانگے تھے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نہیں پہلے آپ یہ بتائیں وہ اصل آڈیو کدھر ہے؟ یہ معاملہ ایک زیر التوا اپیل سے متعلق ہے۔
ہوسکتا ہے اپیل میں انہوں نے خود یہ گراو¿نڈ لی ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک کیس کی متوازی دو سماعتیں چلیں۔درخواست گزار نے عدالت سے کہا کہ صحافی احمد نورانی مجھے کبھی بھی اصل آڈیو نہیں دیں گے۔ اگرعدالت انہیں سمن کرے یا کوئی کمیشن تب ہی آڈیو مل سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آڈیو سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ اس فیصلے کیخلاف جا کرہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ یہ سارا معاملہ ایک کیس سے متعلق ہی ہے۔ زیر التوا کیس سے متعلق متوازی کارروائی کیسے چلائیں یہ بتائیں۔صلاح الدین ایڈوکیٹ نے عدالت سے کہا کہ یہ صرف ایک پہلو ہے کہ آڈیو شریف فیملی سے متعلق ہے۔ ہوسکتا ہے آڈیو کے علاوہ دیگر گراو¿نڈز پر کل شریف فیملی بری ہوجائے۔ کل انہیں صدارتی معافی مل جائے یا کچھ بھی ہو کر کیسز ختم ہو سکتے ہیں۔درخواست گزار نے عدالت سے کہا کہ اس کے بعد بھی اس آڈیو کی دھند چھائی رہے گی۔ عوام کے ذہن میں اس آڈیو سے متعلق سوالات برقرار رہیں گے۔
فرانزک کرائیں شاید رپورٹ آئے کہ آڈیو جعلی یا جوڑ جوڑ کر بنائی گئی۔ اگر ایسی رپورٹ آئی تو سابق چیف جسسٹس اور یہ عدالت بھی بری ہو گی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جب اس عدالت کی بات کرتے ہیں پہلے بتائیں اس عدالت سے کیا شکوہ ہے؟ اب آپ کو پہلے بتانا ہوگا اس عدالت نے ایسا کیا کیا ہے؟۔ صلاح الدین نے عدالت سے کہا کہ میرا مطلب مجموعی طور پر عدلیہ تھا یہ عدالت نہیں۔
مجھے امید ہے رپورٹ یہی آئے گی آڈیو درست نہیں۔ ہوسکتا ہے سابق چیف جسٹس نے یہ بات کسی جج کو نہ کہی ہو۔درخواست گزار نے عدالت سے کہا کہ ہوسکتا ہے یہ ان کی محض اپنے دوست سے کی گئی بات ہو۔ ہوسکتا ہے آڈیو والی گفتگو کا کسی کیس پر اثر نہ پڑا ہو۔ اس کی تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا کہ معاملہ کیا ہے۔عدالت نے کہا کہ یہ ساری گراونڈز اسی زیر التوا اپیل میں کیوں نہیں اٹھائی جا رہیں؟۔
سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کے نمائندے حسن پاشا بھی عدالت میں پیش ہوئے۔حسن پاشا نےعدالت کو بتایا کہ یہ عدلیہ کی آزادی اورخود مختاری کا معاملہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی کی محافظ تو پاکستان بار کونسل ہے۔ بارکونسل کو لگتا ہے عدلیہ کی آزادی متاثرہوئی تو متعلقہ فورم پر کیوں نہیں جاتی؟۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے یہ آڈیو ثاقب نثارسے دوستانہ گفتگو کی ہو۔ جو اصل آڈیو موجود ہی نہیں اس پر زور ہی نہ دیں ابھی۔درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اصل آڈیو تک پہنچنے کا پراسیس تو شروع ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ کو ارشد ملک ویڈیو کیس کا حوالہ دینے سے روک دیاچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس اپیلوں کے ساتھ زیرالتوا ہے۔
ارشد ملک کا اپنا بیان حلفی بھی اسی کیس کا حصہ ہے۔ بیان حلفی میں ارشد ملک نے ویڈیو کی تردید میں بات کررکھی ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کیس پرہم اِس کیس میں بات بھی کیسے کرسکتے ہیں۔ اپیلوں کیساتھ اسی ویڈیو کی بنیاد پر بریت مانگی گئی ہے۔ ہم اس ویڈیو پر کوئی آبزرویشن دے دیں تو وہاں کیس متاثر ہوگا۔ اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بہت محتاط ہونا ہوگا۔صلاح الدین ایڈوکیٹ نے عدالت سے کہا کہ ثاقب نثار نے پہلے کہا یہ ان کی آوازہی نہیں ہے۔ دوسرے چینل نے خبر چلائی کہ آواز ان کی ہے لیکن مختلف جگہوں سے جوڑی گئی ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں تحقیقات ہوں اور کنفیوژن دورہو۔درخواست گزاروکیل صلاح الدین ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد پاکستان بار کونسل کے نمائندے حسن پاشا روسٹرم پرآ گئے۔چیف جسٹس نے حسن پاشا سے پوچھا کیا پاکستان بار کونسل کے پاس اصل آڈیو موجود ہے؟۔ حسن پاشا نے جواب دیا کہ نہیں مائی لارڈ! آڈیو ہمارے پاس بھی موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا مطلب وہ آڈیو صرف انٹرنیٹ پر ہی موجود ہے۔پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ ہم بہت رنجیدہ ہیں اس عدلیہ پر الزامات لگے ہیں جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الزامات تو عدلیہ پر دونوں طرف سے لگتے ہیں۔ آپ رنجیدہ صرف ایک طرف کے الزامات سے ہوتے ہیں؟ انٹرنیٹ پرموجود کیا سارے الزامات کی تحقیقات ہونی چائییں؟عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن کا اپنا کیس ہے انہیں اس پر کوئی اعتراض ہی نہیں۔ اسی عدالت کے ڈویژن بنچ کے سامنے وہ کیس موجود ہے۔ کیا بار کونسل یہ کہتی ہے وہ ڈویژن بنچ یہ معاملہ نہیں دیکھ سکتا؟۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل میں کہا کہ عدالت کے سامنے ابھی کہا گیا آڈیو جھوٹی نکلی یہ عدالت بری ہوگی۔
پھر کہا گیا نہیں اس عدالت پر تو اعتبارہے۔ ہم ایک کیس کیلئے کس حد تک جائیں گے۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ یہ ٹرینڈ ختم ہونا چائیے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک صاحب کی آڈیو پر ساری عدلیہ کمپرومائز ہے۔ اس درخوست گزارمیں اور رانا شمیم میں فرق کیا رہ گیا ہے؟۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ پیغام یہ دیا جا رہا ہے ہاتھ تو لگاو¿ ہم سب ججوں کو گھرچھوڑ کر آئیں گے۔
پیغام یہ ہے جج جدہ بھی بلائیں گے، لاہور بھی اور مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑیں گے۔اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پرحملہ کرایا جاتا ہے یہاں انکوائری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہاں بریف کیس میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں انکوائری کا نہیں کہا جاتا۔
وزیراعظم کو پھانسی لگانے پرنہیں کہا جاتا عدلیہ کمپرومائزڈ ہے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سارامعاملہ آکرعدلیہ کمپرومائزڈ ہونے کا اس کیس سے شروع ہوتا ہے۔ جسے عدلیہ پر اعتبار نہیں کھل کرخود آ کر یہاں کہے اِدھرادھر سے بات نہ کرے۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جن صاحب نے نہ ان کا کیس سنا، نہ کوئی اپیل ان کی آڈیو کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ درخواست میں اٹھائے گئے سارے نکات زیر التوا کیس سے متعلق ہیں۔ ذرا بھی امکان ہو زیر التوا کیس پرفرق پڑے کا تو یہ عدالت کارروائی نہ کرے
خالد جاوید خان نے دلائل میں کہا کہ ایک طرف مو¿قف ہے آڈیو اصلی دوسرا موقف ہے آڈیو گھڑی گئی ہے۔ اس معاملے پر کیا عدالت اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال سکتی ہے؟ میرا موقف ہے عدالت اپنا وزن کسی ایک ایک پلڑے میں نہیں ڈال سکتی۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں مذید کہا کہ کمیشن بھی بنا لیں تو کیا گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ زیر التوا اپیل متاثرنہیں ہوگی۔ تحقیقات کرانی تھی تو پاکستان بار کونسل خود درخواست لاتی۔خالد جاوید نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کو تو بتانا بھی نہ پڑتا کہ وہ متاثرہ فریق ہیں یا نہیں۔ پاکستان بار کونسل بالکل فریق ہوسکتی ہے لیکن وہ نہیں آئے۔ درخواستگزاروکیل کہتے ہیں اصل آڈیو موجود ہی نہیں۔ یہی بنیاد اس درخواست کو مسترد کر دینے کیلئے کافی ہے۔اتارنی جنرل نے دلالئل دیے کہ ایک فرانزک کروا کر اسٹوری دی گئی دوسرا چینل اس کا متضاد فرانزک لے آیا۔ ایک چینل نے یہ دکھایا تھا کہ آڈیو کہاں کہاں سے اٹھا کر جوڑی گئی۔ اب کون سا ورژن درست کہہ کراس پرجائیں گے؟۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ ایک آڈیو تو وزیراعظم ہاو¿س سے صحافیوں سے متعلق گفتگو کی بھی آئی۔کل اس آڈیو کی تحقیقات کیلئے بھی کوئی آ جائے گا اس پر بھی کمیشن بنائیں۔ پاکستانی عدلیہ کو کسی فرانزک کی بیساکھیاں نہیں چاہییں۔ ماضی میں بھی جج سے بات کرنے کی آڈیو آ گئی تھی کچھ نہیں ہوا۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ تاریخ بہت ظالم ہے وہ کسی کو فرانزک رپورٹ پریاد نہیں رکھتی۔ تاریخ ججوں کو ان کے فیصلوں پر یاد رکھے گی۔ میں حکومت کو بھی انکوائری کروانے کا کہہ سکتا ہوں۔ سوال یہ ہے اس انکوائری کا پرنسپل کیا ہوگا؟۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ کس کس معاملے پرانکوائری کرانی کیسے طے کریں؟ شوگر، پیٹرولیم انکوائری پر مجھے کوئی کنفیوڑن نہیں تھی کیا کرنا ہے۔ اس کیس میں جن کی اپیلیں زیر التوا ہیں وہ بھی میرے لیے محترم ہیں۔ یہ ایک زیر التوا کیس نہ ہوتا میں بھی کہہ دیتا کروا لیں انکوائری۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ صلاح الدین صاحب ایک مشکل اور بھی ہے، 2018 میں اسی کیس کے دوران کہا گیا فلاں جج کو بیرون ملک فلیٹ ملا۔ کیا اس معاملے پر بھی کہنا چاہیے کہ اس پر کمیشن بنایا جائے؟ ایک کیس میں ایک معاملے پر کمیشن بنایا جائے تو باقی ایشوزپرکیوں نہیں؟۔ دورانِ سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم سوشل میڈیا کی حوصلہ افزائی کریں کہ سچ جھوٹ جو کہیں ہم انکوائری کرتے رہیں گے؟صلاح الدین ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے ماضی کے واقعات کا حوالہ دیا۔ ہم تاریخ کو جج بنا لیں گے تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔ بریف کیس بھیجنے کی انکوائری ہوتی تو ججوں کو فون کالز کے واقعات نہ ہوتے۔درخواست گزار نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے دو ماہ پہلے کہا بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ اس کا ریفرنس زیرالتوا ہے کیا حکومت نے اس پر سماعت کی درخواست دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا جن کا کیس ہے وہ خود کیوں نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا ہی کیس ہے کیونکہ سوال عدلیہ کا ہے۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ یہ شریف خاندان کے بجائے اللہ رکھا کا کیس بھی ہوتا تو میں اتنا ہی رنجیدہ ہوتا۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل میں کہا کہ میں صلاح الدین ایڈوکیٹ اور بار کو ایک پیشکش کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہیں اللہ رکھا کے کیس پر بھی یہ اتنے ہی رنجیدہ ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا چلیں پھر پہلے سجاد علی شاہ کو ہٹانے کی انکوائری کراتے ہیں۔ یہ معاملہ تو یوں بھی کہیں زیر التوا نہیں ہے۔صلاح الدین ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل اب بالکل ہی گڑے مردے اکھاڑنے کی بات کر رہے ہیں۔