ڈاکٹر عبدالقدیر خان

ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے

اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن) پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے، یہ پاکستان کی واحد شخصیت اور پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے، انہیں 2 بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جبکہ ہلالِ امتیاز بھی عطا کیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نجی اسپتال میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ شیخ رشید نے مزید بتایا کہ انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ انتقال کے وقت ڈاکٹر عبدالقدیر کی عمر 86 سال تھی۔

وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ اتوار کیصبح انہیں طبیعت خرابی کے باعث انتقال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور صبح 7 بجے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ ان کی تدفین اسلام آباد میں ہی کی جائے گی۔ یہ پاکستان کی واحد شخصیت اور پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے، انہیں 2 بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جبکہ ہلالِ امتیاز بھی عطا کیا گیا۔

وزیر مملکت اطلاعات فرخ حبیب نے ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ محسن پاکستان کا انتقال قومی سانحے سے کم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ محسنِ پاکستان، قومی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگست 26 کو عالمی وبا کرونا وائرس کا شکار بھی ہوئے تھے جس کے بعد ان کی آکسیجن پائپ لگی تصویر منظرِ عام پر آگئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہ تصاویر منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور تمام اہلِ وطن کی جانب سے ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔ اس حوالے سے قومی سائنسدان کے ترجمان کی جانب سے جاری کیئے گئے بیان میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر 26 اگست کو کے آر ایل اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں 28 اگست کو ملٹری اسپتال میں کوویڈ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کے تیزی سے صحت یاب ہونے کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947 میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976 میں انہوں نے انجینیرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ڈاکٹر قدیر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیون میں پڑھنے کے بعد 1976 میں واپس پاکستان آگئے۔مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا اور بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ۔

انیس سو چھتیس میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ۔کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسی ادارے نے 25 کلو میٹر تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے۔

ڈاکٹر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے تھے لیکن 19 دسمبر 2004 کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھا ۔

ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔ چودہ اگست 1996 میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے سیچٹ کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کئی تنازعات کا شکار ہوئے، پہلے ان پر ہالینڈ سے ایٹمی معلومات چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس سے وہ باعزت بری ہوئے تو 2004 میں سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور میں ایک دفعہ پھر حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کی چارج شیٹ لگادی گئی، جس پر انھیں اپنے گھر میں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ عدالت اور عوامی رد عمل پر ان کی نظربندی کچھ عرصے بعد ختم کردی گئی تھی، مگر اس کے باوجود ملک کے یہ نامور سپوت گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے