پوڈ کاسٹ 21

اگر چینی اوپن سورس کی فراہمی نہ ہوتی تو دنیا کا کیا ہوتا؟

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)حال ہی میں گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمٹ نے ایک پوڈ کاسٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ کے سب سے طاقتور اے آئی ماڈلز مکمل طور پر بند ہیں، جبکہ چین کے جدید ترین ماڈلز مکمل طور پر اوپن سورس ہیں۔ وہ ممالک جن کے پاس مغرب جتنے پیسے نہیں ہیں، وہ بلاشبہ چینی ماڈلز کو ترجیح دیں گے۔”

بالکل اوپن اے آئی کے جی پی ٹی سیریز جیسے بند ماڈلز کو استعمال کرنے کے لیے ہر بار پیسے ادا کرنا پڑتے ہیں، اور ان کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں۔ کیا آپ انہیں برداشت کر سکتے ہیں؟ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے، جس کے پاس ” اے آئی خود مختاری” موجود نہیں ہے اور وہ امریکی اے آئی سسٹمز کی بھاری قیمتیں ادا نہیں کر سکتا، پھر کیا ہوگا؟ کیا ترقی کی باگ ڈور ہمیشہ دوسروں کے ہاتھوں میں رہے گے؟ کیا نئی ٹیکنالوجی کے دور میں پیچھے رہ کر ہمیشہ غربت کا شکار رہیں گے؟

حال ہی میں، اوپن ایٹم ڈویلپر 2025 کانفرنس بیجنگ میں منعقد ہوئی۔ اس صنعتی تقریب نے چینی اوپن سورس ٹیکنالوجی کی بنیادی تحقیق سے لے کر صنعتی عمل تک کے مکمل سلسلے کو پیش کیا، اور “اوپن ہارمونی” اور “اوپن ایولہ” جیسے دو بڑے منصوبوں کے وسیع پیمانے پر مکمل استعمال کا اعلان کیا جس سے چینی اوپن سورس سسٹم کی تعمیر میں بڑی اہم تبدیلی اور ترقی ظاہر ہوتی ہے ۔ چینی حکومت کی “اوپن سورس سسٹم کی تعمیر کو تیز کرنے” کی حکمت عملی کی رہنمائی میں، یہ ٹیکنالوجیکل انقلاب صنعتی اختراع کےطریقہ کار کو نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے، اور عالمی ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں چینی دانش کو شامل کر رہا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کے عالمی مقابلے کے اصولوں کو تبدیل کرنے کے موجودہ دور میں، چند امریکی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں نے اس ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری کے ذریعے اے آئی کو “ایلیٹ کا کھلونا” بنا دیا ہے، اور انتہائی زیادہ قیمتوں کے ذریعے عالمی دولت کو ہتھیا رہے ہیں، جس سے ممالک کے درمیان ترقی کا فرق بڑھ رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین کی اے آئی اوپن سورس اور ہمہ گیر حکمت عملی نہ صرف مغرب کی ٹیکنالوجی کی بالادستی کو توڑ رہی ہے، بلکہ “عوامی آلہ” کے تصور کے ساتھ متوازن عالمی ترقی کو مضبوط قوت فراہم کر رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو “ٹیکنالوجی میں پیچھے رہتے ہوئے دولت کے ضیاع” کےشیطانی چکر سے بچنے کا ایک نیا موقع فراہم کر رہی ہے۔

ٹیکنالوجی کے لحاظ سے، چین کی اوپن سورس حکمت عملی نے اجارہ داری کی ٹیکنالوجی رکاوٹوں کو توڑ دیا ہے، اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مساوی شرکت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ امریکی اے آئی بڑی کمپنیوں نے بند ماڈلز اور مرکزی الگورتھمز کو بند کر کے ناقابل عبور ٹیکنالوجیکل خلیج پیدا کی ہے۔ جیسے اوپن اے آئی کے جی پی ٹی کے ٹوکن کی لاگت تقریباً صفر ہے، لیکن وہ بھاری قیمتو٘ں پر فروخت کرتے ہیں، یہ ان کیلئے ایک منافع بخش گائے ہے۔ لیکن چین کی ڈیپ سیک، علی بابا جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں مرکزی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر اوپن سورس کر رہی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ “منافع بخش گائے” کو “عوامی چراگاہ” میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کیا وہ اب بھی ٹیکنالوجی چھپا کر تیزی سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں؟نہیں، کوئی راستہ نہیں بچا!

چین کی حکمت عملی ترقی پذیر ممالک کو بغیر بھاری لائسنس فیس اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی کے تعاقب میں “بھاری پیٹنٹ فیس ادا کرنا – دولت کا ضیاع – ترقی میں کمی” کے پرانے راستے کو دہرانے کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ وہ براہ راست ایک ہی لائن میں کھڑے ہو کر اے آئی کی اختراع میں حصہ لے سکتے ہیں، اور بنیادی طور پر اے آئی کے دور میں مستقل طور پر پسے جانے کے خطرے سے بچ سکتے ہیں۔

معاشی لحاظ سے، چین کی اوپن سورس حکمت عملی نے عالمی مصنوعی ذہانت میں مفادات کی تقسیم کے ڈھانچے کو دوبارہ تشکیل دیا ہے، اور ٹیکنالوجیکل اجارہ داری سے دولت کی لوٹ کو روکا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جب چینی اوپن سورس ماڈلز استعمال کرتے ہیں، تو انہیں مغرب کے مہنگے سرورز پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وہ علی کلاؤڈ جیسے چینی سسٹم کے ذریعے کم لاگت پر انحصار کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ترقی پذیر ممالک کو کم لاگت پر اپنی مقامی مصنوعی ذہانت کی صنعت کو پروان چڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ جو دولت پہلے مغربی دیو ہیکل کمپنیوں کی طرف بہہ رہی تھی، اب اس دولت کو مقامی سطح پر محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، اور اسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، افرادی قوت کی تربیت پر صرف کیا جا سکتا ہے، تاکہ وہ آہستہ آہستہ ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کی معاشی وابستگی و انحصار سے آزاد ہو کر خود مختار اور پائیدار ترقی حاصل کر سکیں۔

سیاسی لحاظ سے، اوپن سورس وسیع ،منصفانہ اور عادلانہ ترقی کے تصور کو ظاہر کرتا ہے، اور عالمی حکمرانی کو زیادہ متوازن سمت میں آگے بڑھاتا ہے۔ ٹیکنالوجیکل اجارہ داری درحقیقت “ٹیکنالوجیکل برتری – قواعد سازی کا اختیار اورمفادات کی تقسیم کے اختیار” کا تسلسل ہے۔ امریکہ اے آئی ٹیکنالوجی کی برتری کے ذریعے یکطرفہ عالمی ڈیجیٹل حکمرانی کر رہا ہے، اور ٹیکنالوجی کے معیارات، ڈیٹا کے قواعد کو اپنے مفادات کے ساتھ باندھ رہا ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک غیر مساوی قواعد کو مجبوراً قبول کر رہے ہیں۔ چین کی اوپن سورس حکمت عملی “ٹیکنالوجی کا اشتراک، مفادات میں جیت جیت” پر مرکوز ہے، اور سب کے لیے قابل استعمال مصنوعی ذہانت کی وکالت کرتی ہے، جو بنیادی طور پر “ٹیکنالوجی کی بالادستی قواعد کی بالادستی کے برابر ” کی نفی ہے۔

جب زیادہ سے زیادہ ترقی پذیر ممالک چینی اوپن سورس سسٹم کے ذریعےاے آئی صنعت کو ترقی دیں گے، تو ان کی عالمی ڈیجیٹل حکمرانی میں آواز نمایاں طور پر بڑھے گی، اور وہ زیادہ منصفانہ ٹیکنالوجی کے معیارات اور مفادات کی تقسیم کے قواعد کی تشکیل میں مشترکہ طور پر حصہ لے سکیں گے، اور چند ممالک کی ٹیکنالوجیکل حکمرانی کی اجارہ داری کو توڑ سکیں گے۔عوامی بہبود کی اس روح پر مبنی حکمرانی کی یہ تبدیلی نہ صرف بین الاقوامی تکنیکی کشیدگی کو کم کرے گی، بلکہ ‘مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر، مشترکہ اشتراک’ پر مبنی عالمی اے آئی حکمرانی کا نظام بھی تشکیل دے گی اور عالمی امن اور ترقی کے لیے مضبوط بنیاد رکھ سکتی ہے۔

انسانی تہذیب کی ترقی ٹیکنالوجی کے وسیع اشتراک پر انحصار کرتی ہے، لیکن امریکہ اور مغرب نے ہمیشہ ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کو برقرار رکھا ہے،جس کی وجہ سے ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی کا خواب خواب ہی رہا، اور یہی عالمی ترقی میں عدم توازن کی بنیادی وجہ ہے۔ چین نے متعدد ٹیکنالوجی کے شعبوں میں غیر معمولی ترقی کرتے ہوئے عالمی رہنمائی کا کردار ادا کیا ہے۔

“ساری دنیا ایک خاندان ہے” کے فلسفے پر یقین رکھنے والا اور باہمی تعاون کے ذریعے مشترکہ کامیابی کا نعرہ لگانے والا چین، پوری انسانیت کے لیے نئی امیدوں کا پیغام لے کر آیا ہے۔ زیادہ دوستانہ، زیادہ منصفانہ، پر کشش اور انسانی اقدار کا احترام کرنے والی چینی ٹیکنالوجی عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کر رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کا حتمی مقصد چند افراد کی دولت میں اضافہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی اجتماعی ترقی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں