اسکاٹ بیسنٹ 37

امر یکہ کی جا نب سے چین کے تجارتی سرپلس کو نشانہ بنانا اقتصادی حقیقت کی غلط تشریح ہے، چینی میڈیا

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) امریکی سیکٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا کہ “دنیا دس کھرب ڈالر کے تجارتی سرپلس والے چین کو برداشت نہیں کر سکتی”۔

اس طرح کے بیانات بظاہر عالمی اقتصادی عدم توازن کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ بنیادی اقتصادی سمجھ سے عاری اور منطقی تضادات سے بھرپور ہوتے ہیں ۔ اگر ہم سیاسی تعصب کو ترک کر کے عالمی تجارت کی نوعیت، چین کے تجارتی سرپلس کی ساخت اور امریکی معیشت کے ڈھانچے پر نظر ڈالیں، تو واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ صرف چین کے تجارتی سرپلس کو نشانہ بنانا نہ صرف پیچیدہ اقتصادی حقیقت کی غلط تشریح ہے، بلکہ عالمگیریت کے دور میں تعاون اور باہمی فائدے کی روح سے بھی انحراف ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ چین کا تجارتی سرپلس عالمگیر صنعتی تقسیم کار کا قدرتی نتیجہ ہے، نہ کہ جان بوجھ کر تیار کردہ پالیسی کا شاخسانہ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تحقیق نے پہلے ہی نشاندہی کی ہے کہ “کل تجارتی قدر ” کے لحاظ سے سرپلس کا شمار اقتصادی فوائد کی اصل تقسیم کو شدید طور پر مسخ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کو عالمی صنعتی چین میں حاصل ہونے والی اصل آمدنی سطحی اعداد و شمار سے کہیں کم ہے۔

چین کی اشیاء کا بھاری تجارتی سرپلس عالمی ویلیو چین میں گہرائی سے جڑا ہوا ہے، اور اس کی ساخت کا ایک بڑا حصہ پروسیسنگ ٹریڈ پر مشتمل ہے، جس کا مطلب ہے کہ حتمی برآمدی قدر میں دنیا بھر کے ممالک سے درآمد شدہ اعلیٰ ویلیو ایڈڈ درمیانی اشیاء شامل ہیں، اور چین کا موثر مینوفیکچرنگ نظام عالمی مارکیٹ کو مستحکم اور قیمت کے لحاظ سے مسابقتی اشیاء فراہم کرتا ہے، جو عالمی افراط زر کو روکنے اور دنیا بھر ،بشمول امریکی صارفین، کے لیے نمایاں فلاحی بہتری لانے میں مدد دیتا ہے ۔ عالمی تقسیم کار کی کارکردگی کے اس واضح نتیجے کو عالمی تجارتی توازن کے لیے خطرہ قرار دینا یقیناً یکطرفہ سوچ ہے۔

امریکی سکریٹری خزانہ کا چین کے تجارتی سرپلس کو نشانہ بنانا درحقیقت امریکہ کے طویل مدتی بڑے تجارتی خسارے کے لیے بہانہ تلاش کرنا بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے بڑے تجارتی خسارے کی جڑ اس کے داخلی اقتصادی ڈھانچے کا طویل مدتی عدم توازن ہے، نہ کہ دوسرے ممالک کی تجارتی پالیسیاں ۔ کسی معیشت کا تجارتی توازن بنیادی طور پر اس کی قومی بچت اور سرمایہ کاری کے فرق کا بین الاقوامی تجارت میں عکاس ہوتا ہے۔ امریکہ کی مسلسل کم بچت کی شرح (خاص طور پر حکومتی شعبے کا بڑا مالیاتی خسارہ) اور مضبوط داخلی کھپت اور سرمایہ کاری کی طلب لازمی طور پر بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

ساتھ ہی ، ڈالر کی بین الاقوامی ریزرو کرنسی کی حیثیت امریکہ کو کم لاگت پر سرمائے کی آمد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے طویل مدتی مسلسل تجارتی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو ،امریکی سکریٹری خزانہ کا یہ بیان دراصل بین الاقوامی اقتصادی میدان میں “امریکہ فرسٹ” کے سیاسی ایجنڈے کا اظہار ہے، جو اس کی داخلی سیاسی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس کا مقصد چین کو عالمی اقتصادی عدم توازن کا “ذمہ دار فریق” بنا کر ممکنہ طور پر زیادہ تحفظ پسندانہ یکطرفہ اقدامات کی راہ ہموار کرنا اور داخلی عوامی رائے کو 34 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرنے والے مالیاتی خسارے اور قرض کے حجم جیسے سنگین چیلنجز سے ہٹانا ہے۔ تاریخ بار بار ثابت کر چکی ہے کہ تجارتی تحفظ پسندی ساختیاتی خسارے کو تبدیل نہیں کر سکتی، بلکہ اس سے ملکی قیمتیں بڑھتی ہیں، سپلائی چین میں خلل پڑتا ہے، اور بالآخر ملکی کمپنیوں اور صارفین کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔

جب عالمی معیشت کمزور نمو اور بڑھتے ہوئے قرض کے خطرات جیسے مشترکہ چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، تو ایسی “الزام تراشی” بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے میں قطعی مدد نہیں کرتی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ چین عالمی تجارتی توازن کو فروغ دینے کے لیے کھلے پن کو وسیع کر کے ہمیشہ سے عملی کوششیں کرتا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، چین نے فعال طور پر امپورٹ ایکسپو کا انعقاد کیا ہے، علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے) آر ای سی پی (جیسے فریم ورک کے تحت اپنے کھلے پن کے وعدوں کو پورا کیا ہے، اور بیرونی سرمایہ کاری کی منفی فہرست کو مسلسل کم کرتا رہا ہے، جس کا مقصد فعال طور پر درآمدات کو بڑھانا اور دنیا کے ساتھ مارکیٹ کا اشتراک کرنا ہے۔ چین عالمی اقتصادی ترقی میں سالانہ شراکت کے حوالے سے طویل عرصے سے پہلے نمبر پر رہا ہے، اور اس کی معیشت کا استحکام اور ترقی خود عالمی معیشت کی “اینکر” ہے۔

دنیا کو معقول انداز میں جو چیز دیکھنے کی ضرورت ہے ، وہ چین کے تجارتی سرپلس کے سائز کی بجائے مغربی ممالک کا اپنے گہرے اقتصادی تضادات کا سامنا کرتے وقت بیرونی وجہ تلاش کرنے کا غیر تعمیری رویہ ہے۔ چین کا تجارتی سرپلس مارکیٹ اور عالمی صنعتی قوتوں کے مشترکہ عمل کا نتیجہ ہے، جبکہ اصل میں جو چیز دنیا کے لیے ناقابل برداشت ہو سکتی ہے، وہ بڑی معیشتوں کے درمیان تعاون کی روح کا خاتمہ، زیرو سم گیم پر مبنی تجارتی مقابلہ بازی، اور اپنے داخلی اصلاحاتی مسائل کے حل سے گریز ہے۔ بین الاقوامی برادری کو کثیر جہتی فریم ورک کے تحت کھلے مکالمے اور ہم آہنگ رویوں کی طرف واپس آنا ہوگا تاکہ عالمی معیشت کو زیادہ متوازن اور پائیدار مستقبل کی طرف لے جایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں