اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں،ڈی ایف آئیز،ایم ایف بیز کے خلاف 2016ء تا 2019ء کی شکایات کا جائزہ

کراچی(رپورٹنگ آن لائن)اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینکوں،ڈی ایف آئیز،ایم ایف بیز کے خلاف شکایات کا چار سالہ (2016-2019) جائزہ لیا ہے۔ جائزے کا مقصد بینکوں کے خلاف شکایات کے انتظام کی اثرانگیزی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔

جائزے کے چیدہ چیدہ نکات شائع کیے جارہے ہیں جس سے اسٹیٹ بینک کا یہ بیانیہ تقویت پائے گا کہ شکایات کو ذمہ دارانہ طریقے سے نمٹانا صارف کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کا ایک کلیدی جز ہے۔

اس جائزے کے علاوہ شعبے میں صارفین کی شکایات نمٹانے کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے کئی ضوابطی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں بینکوں میں شکایات کے انتظام پر تفصیلی رہنما خطوط کا اجرا اور ذاتی جانچ کا فریم ورک شامل ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ذمہ دارانہ بینکاری طرز عمل اور صارف کے ساتھ منصفانہ برتاؤ اسٹیٹ بینک کا ایک کلیدی ضوابطی ایجنڈا ہے۔

اسٹیٹ بینک آگاہ ہے کہ صارفین کی شکایات نمٹانے کے مؤثر اور کارگر طریقہ ہائے کار ایف ٹی سی کے اہم ترین عناصر ہیں۔ اس لیے وہ صارفین کی شکایات کو بینکاری خدمات کو بہتر بنانے اور صارفین کے اطمینان کو بڑھانے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران بینکوں کے خلاف شکایات 2016ء میں 774,656 سے بڑھ کر2019ء میں 549,837 ہوگئیں۔ یہ اضافہ اس لیے ہوا کہ تنازع کے تصفیے کے طریقہ کار سے اب زیادہ لوگ واقف ہیں اوراس تک رسائی بہتر ہوگئی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ صارفین کی آگہی بھی بڑھی ہے۔ مزید برآں اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ بینکاری ٹرانزیکشنز کی تعداد اور مالیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر زیر جائزہ مدت کے دوران اے ٹی ایم،ڈیبٹ کارڈ کی ٹرانزیکشنز کے حجم اور مالیت میں بالترتیب 101 فیصد اور 110 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ڈپازٹ اکاؤنٹس فی اے ٹی ایم اور فی برانچ کی تعداد میں بالترتیب 62 فیصد اور 81 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2016ء سے 2019ء کے دوران ای بینکاری ٹرانزیکشنز کے حجم اور مالیت میں بالترتیب 112 فیصد اور 152 فیصد کا اضافہ ہوا جس کا سبب ای بینکاری استعمال کنندگان میں 71 فیصد اضافہ تھا۔

علاوہ ازیں کریڈٹ کارڈ کی ٹرانزیکشنز 18 ملین سے بڑھ کر 39 ملین ہوگئیں جن سے 4 برسوں میں 118 فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مدت کے دوران شکایات میں اضافہ بھی زیادہ تر اے ٹی ایم،ڈیبٹ کارڈ، اکاؤنٹ مینٹی ننس، ای بینکاری اور کریڈٹ کارڈز میں مرتکز رہا۔ جہاں تک شکایات نمٹانے کا تعلق ہے، 2016ء سے 2019ء تک کے عرصے میں تصفیے کی شرح ہر سال کے آخر میں 97فیصد سے زیادہ رہی۔

شکایات کے تصفیے کا اوسط وقت ضوابط کے مطابق مقررہ وقت کی حدود کے اندر رہا۔ تاہم اقرار وصولی(اکنالجمنٹ) ، عبوری جوابات اور حتمی جوابات بھیجنے میں تاخیر دیکھی گئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ شکایات دور کرنے کا پہلا فورم بینک ہیں اس لیے وہ شعبے کی مجموعی شکایات کے 97 فیصدیا زائد کو نمٹاتے رہے جبکہ 3 فیصد سے کم شکایات بلند تر سطحوں پر لائی گئیں جن میں اسٹیٹ بینک، بینکاری محتسب اوروزیر اعظم ڈلیوری یونٹ کا قائم کردہ پاکستان سٹیزن پورٹل شامل ہیں۔

بینکوں میں تصفیہ شکایات کے عمل میں بہتر ی لانے اور مسابقت کے فروغ کے لیے اسٹیٹ بینک متعلقہ اکتشافات (ڈسکلوڑرز)کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے جس میں مستقبل قریب میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مختلف بینکوں کے شکایات نمٹانے سے متعلق کارکردگی کے اظہاریوں کی اشاعت شامل ہے۔ فی الوقت خود بینکوں کو معلومات عام کرنے کے لیے اپنے سالانہ آڈٹ شدہ اکاؤنٹ میں شکایات کے انتظام سے متعلق انکشافات کرنے ہوتے ہیں۔