اسٹیٹ بینک

5 ماہ میں بینکوں کی غیر سرکاری شعبے میں 2 ہزار 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری

اسلام آبا د(رپورٹنگ آن لائن)بینکوں نے رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران غیر سرکاری شعبے بالخصوص نجی شعبے اور بینکوں سے ہٹ کر مالیاتی اداروں (این بی ایف آئیز) میں 2 ہزار 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔بینک انکریمنٹل ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے قرضوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے میں جلد بازی کر رہے ہیں، جو 31 دسمبر کو ادا کرنا ہوگا۔رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ایسے بینکوں پر 15 فیصد تک ٹیکس عائد کیا تھا، جو 31 دسمبر تک ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشیو (اے ڈی آر) کو 50 فیصد تک بڑھانے میں ناکام رہیں گے۔

جون کے مہینے میں بینکوں کا اے ڈی آر 38 فیصد رہا۔مالی سال 25 کی دوسری سہ ماہی میں بینکوں نے بڑے پیمانے پر قرضے دینا شروع کیے، بڑے ڈپازٹس پر فیس وصول کرکے ڈپازٹس کو کم کیا اور مزید ڈپازٹس کی حوصلہ شکنی کی۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا نومبر کے دوران غیر سرکاری شعبے کو قرضے 2 ہزار 270 ارب روپے تک پہنچ گئے جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ایک سو 42 ارب 80 کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے۔نجی شعبے کے لیے بینکوں کی جانب سے انتہائی سست پیش قدمی کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے، جس سے معاشی ترقی کم ترین سطح پر پہنچ گئی، تاہم قرضوں میں کمی کی بنیادی وجہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 22 فیصد شرح سود اور ریکارڈ افراط زر تھی، جو مئی 2023 میں اب تک کی بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔بینکوں کی جنب سے حالیہ تیز پیش قدمی میں اضافے کی بنیادی وجہ اے ڈی آر کی شرط کی وجہ سے انکریمنٹل ٹیکس سے بچنا تھا، شرح سود مزید نیچے جانے سے پہلے بینک بڑے پیمانے پر قرض دے رہے ہیں، نومبر میں 4.9 فیصد افراط زر نے پالیسی ریٹ میں مزید نمایاں کمی کی گنجائش پیدا کی ہے۔اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ (شرح سود) کو جون کے 22 فیصد سے 700 بی پی ایس کم کرکے 15 فیصد کردیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران بینکوں نے این بی ایف آئیز کو ایک ہزار 142 ارب روپے کا ریکارڈ قرض دیا جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 55 ارب 40 کروڑ روپے کی خالص ادائیگی کی گئی تھی، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جون 2024 کے اختتام تک این بی ایف آئیز کو دیے گئے قرضوں کا حجم 4 سو 41 ارب 60 کروڑ روپے تھا۔نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں سب سے بڑا حصہ روایتی بینکوں کا تھا کیونکہ ان کے قرضے 5 ماہ کے دوران 6 سو 98 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ان کا خالص قرض 48 ارب 60 کروڑ روپے تھا۔اسلامی بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کے لیے قرضے بھی 28 ارب 30 کروڑ روپے کے خالص قرض سے بڑھ کر3 سو 24 ارب 90 کروڑ روپے کی سطح پر جاپہنچے۔

تاہم، روایتی بینکوں کی اسلامی شاخوں کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پانچ ماہ کے دوران خالص قرض 25 ارب 70 کروڑ روپے رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں ایک ارب 60 کروڑ روپے کے خالص قرضے جاری کیے گئے تھے۔بینکنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینکوں کی جانب سے بھاری قرضوں کے اخراج نے انہیں اپنا اے ڈی آر بڑھاکر 47 فیصد کی سطح پر رکھنے میں مدد دی ہے، تاہم بینکوں کو دسمبر کے آخر تک اسے 50 فیصد کی سطح پر لیکر جانا چاہیے، تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ بینکوں نے پہلے ہی کامیابی سے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے۔بینکر ز کے مطابق اگر بینکوں کا اے ڈی آر 40 سے 50 فیصد کے درمیان رہے گا تو انہیں 6 فیصد انکریمنٹل ٹیکس حکومت کو ادا کرنا ہوگا۔