وزیراعظم عمران خان

ہمارا منشور ملک میں قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کا قیام،وزیراعظم

اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا منشور ملک میں قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کا قیام ہے، کرپشن سے ملک غریب ہوتے ہیں، سیاست میں آنے کا فیصلہ ملک کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانا تھا، جو ملک طاقتور لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں نہ لاسکیں وہ تباہ ہوتے ہیں،میری پارٹی کا منشور قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کا قیام ہے، امریکیوں نے افغانستان کی تاریخ پڑھی ہی نہیں، جو لوگ افغانوں کی تاریخ سے واقف ہیں وہ یہ اقدام نہ کرتے جو امریکا نے کیا،میں پہلے دن سے افغانستان کے فوجی حل کا مخالف تھا، امریکا کے افغانستان میں مقاصد واضح نہیں تھے، اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد ان کا مشن ختم ہو جانا چاہیے تھا، اگر مقاصد واضح نہ ہوں تو ناکامی ہوتی ہے، افغانستان کے عوام غیر ملکی حکمران قبول نہیں کرتے، افغان عوام آزاد خیال لوگ ہیں، وہ بیرونی حکمران کو نہیں مانتے۔

چین کی فوڈان یونیورسٹی کی ایڈوائزری کمیٹی کے ڈائریکٹر ایرک لی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ کسی کھلاڑی کا عالمی کھیل میں طویل ترین کیریئر تھا، آپ جانتے ہیں کہ جب میں نے کھیلنا چھوڑا عام طور پر کھلاڑی اپنی باقی زندگی اسی کھیل سے جڑے ہوتے ہیں کیونکہ جب آپ کسی کھیل میں خاص مقام تک پہنچ جاتے ہیں دوسرے لفظوں میں اگر آپ ایک عالمی پایہ کے کھلاڑی بن جائیں یا کوئی ایسا کھلاڑی جس نے اپنے کھیل کے دنوں میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی ہو تو اپنی باقی زندگی آپ آسانی سے کھیل کمنٹیٹر بن کر یا میڈیا جا کے جو چاہیں کرتے ہیں، کوچنگ وغیرہ یعنی آپ کےلئے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں لیکن جب میں ریٹائر ہوا تو میں کبھی دوبارہ واپس اس میں نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ انسان بہت با صلاحیت ہے اور خدا نے ہم سبھی کو بے تحاشا صلاحیت دی ہے لیکن اس صلاحیت کے ساتھ آپ انصاف تبھی کر سکتے ہیں جب آپ خود کو چیلنج کرتے ہیں، جو نہی آپ خود ک چیلنج کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو زندگی میں ہمواریت جیسی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا، آپ زندگی میں مزید اوپر جاتے ہیں اور جونہی آپ خود کو چیلنج کرنا چھوڑتے ہیں تو آپ رویہ زوال ہوتے ہیں،

اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو ایسا ہی تخلیق کیا ہے میں ہمیشہ سے اپنے کھیلوں کا کیریئر ختم کرنے کے بعد کھیلوں سے کنارہ کش ہونا چاہتا تھا کیونکہ میرے لئے وہ ایک زندگی آسانی ہوتی اور میں اسی زندگی سے نہیں جڑا رہنا چاہتا تھا، اسی لئے میں نے کھیل سے کنارہ کش ہونے کے بعد پہلے کینسر ہسپتال بنایا کیونکہ اس وقت پاکستان میں کینسر کا کوئی مخصوص ہسپتال نہ تھا اور یہ ملک کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بھی تھا اور جو آج بھی موجود ہے اور اب میں نے عطیات سے دوسرا کینسر ہسپتال بنالیا ہے اور ابھی تیسرے ہسپتال کی تعمیر کے عمل میں ہوں، مزید یہ کہ میں نے دو یونیورسٹیاں بنائیں اور یہ تمام خیراتی ہیں یہ کوئی کاروباری ادارے نہیں ہیں، بنیادی طور پر یہ لوگوں کےلئے ہے، جو یونیورسٹی کی معیاری تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے باقبل نہیں ہے، تقریباً پچھتر فیصد لوگ کینسر کا مفت علاج کرواتے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں میں نوے فیصد لوگ مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں اور میں اسی سمت آگے بڑھ رہا تھا، پھر میں نے سیاست میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ بگڑے سیاستدان ہمارا ملک کو تباہ کر رہے ہیں، میرا ایمان ہے کہ ملک غریب صرف بدعنوانی کی وجہ سے ہے،

بدعنوانی قانون کی حاکمیت نہ ہونے کی علامت ہے، قانون کی حاکمیت سے میری مراد ایسا ملک جو اپنے طاقتور بدمعاشوں کو قانون کے تابع نہیں لا سکتا ایسے ملک بنانا ری پبلک بن جاتے ہیں اور وہ ملک غربت کا شکار ہو جاتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ میں سیاست میں آیا، میرا منشور دو اصولوں پر مبنی تھا ایک قانون کی حکمرانی جبکہ دوسرا پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا، یہی وجہ ہے کہ میں پچیس سال پہلے سیاست میں آیا میں نے بائیس سال جدوجہد کی اور آخر کار اس منصب تک پہنچا، بہت ہی متاثر کن سفر ہے۔ چین کے ڈائریکٹر نے سوال کیا کہ اگلا سوال افغانستان کے حوالے سے ہے، افغانستان اور پاکستان دونوں کا ہمسایہ ہے، آپ مستقبل قریب میں وہاں صورتحال کیا رخ اختیار کرتی دیکھ رہے ہیں، افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے میں چین کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے اور یہ بھی امریکہ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو افغانستان میں امریکی ناکامیوں کا دوش پاکستان کی طالبان کو حمایت کو دیتے ہیں اور اس الزام پر آپ کا کیا موقف ہے،

اس پر وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکیوں نے افغانستان کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، آپ جانتے ہیں کہ ایک کہاوت ہے کہ جو لوگ تاریخ کا سبق نہیں سیکھتے وہ اسے دہرا کر تباہ ہو جاتے ہیں، لہٰذا جو کوئی افغانستان کی تاریخ جانتا ہے وہ یہ نہ کرتا جو امریکیوں نے کیا، کیونکہ میں وہ شخص تھا جو شروع دن سے کہتا رہا کہ امریکی افغانستان میں کبھی بھی فتحیاب نہیں ہوں گے، پہلی بات تو یہ ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں تھی کہ وہ افغانستان میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں آیا وہ قوم کو تشکیل دینا چاہتے تھے یا وہ جمہوریت میں لانا چاہتے تھے، آیا وہ افغان خواتین کو آزادی دلوانے آئے تھے، ان کے کوئی واضح مقاصد ہی نہیں تھے، اگر کچھ تھا تو جب ایک بار اسامہ بن لادن کو امریکیوں نے مار دیا تھا تو ان کا مشن ختم ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ بظاہر تو صرف القاعدہ سے لڑنے کےلئے آئے تھے، مگر القاعدہ تو افغانستان میں پہلے دو سال میں ہی مٹا دی گئی تھی اس کے بعد وہ وہاں کیا کر رہے تھے،امریکیوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ وہاں کیا کیر رہے تھے جب آپ کے سامنے واضح مقاصد ہی نہ ہوں کہ آپ نے ایک ملک میں چڑھائی کیوں کی، بہر صورت ناکامی پر ہی منتج ہونا تھی،

دوسری بات یہ کہ وہ افغانوں کے کردار کو ہی نہیں سمجھتے، افغانستان کے عوام اپنے ملک پر غیر ملکیوں کی حاکمیت قبول نہیں کرتے، وہ باہر سے کنٹرول کیا جانا قبول نہیں کرتے، وہ دنیا کے سب سے آزاد منش لوگوں میں سے ہیں لہٰذا جو کوئی سمجھتا ہے کہ وہ افغانستان کے لوگوں کو کنٹرول کرسکتا ہے یا ان پر قبضہ جما سکتا ہے تو اس نے اس کی تاریخ ہی نہیں پڑھی ہوئی اس لئے میں بیس سال تک یہ کہتا رہا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں نکلے گا کیونکہ میں افغانستان کی تاریخ سے واقف ہوں، میرے آباﺅ اجداد افغانستان سے بھارت آئے تھے اور میں نے تاریخ پڑھی اسی لئے بدقسمتی سے کوئی بھی یہ بات نہیں سمجھا کیونکہ جرنیلوں کو اپنے اسلحہ کی طاقت پر بہت بھروسہ تھا، وہ خود کو قابل تسخیر سمجھتے تھے تاہم اگر لوگ آپ کی حکومت کو قبول نہ کرنا چاہیں تو آپ ان پر حکومت نہیں کر سکتے اگر کوئی لوگ کسی غیر ملکی حملہ آور کو قبول نہ کریں تو اس حملہ آور کو زیادہ عرصہ ت انہیں زیر نگیں رکھنے میں مشکلات ہوں گی، اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کا سارا منصوبہ ہی غلط منطق پر مبنی تھا اور اس کے کوئی واضح مقاصد نہ تھے اور اس نے کبھی بھی کامیاب نہیں ہونا تھا اب ہوا کیا ہے کہ چالیس سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ در حقیقت افغانستان میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی، وہاں کوئی خانہ جنگی نہیں ہورہی، افغانستان میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی لیکن افغانستان کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ کسی وجہ سے امریکی طالبان کی حکومت اور چار کروڑ افغانوں میں تفریق نہیں کر پا رہے، خطرہ یہ ہے کہ وہ طالبان کو ان کی حکومت پر پابندیوں کے ذریعے سزا دینے کے چکر میں ہیں، پہلے ہی افغانستان میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے،

وہ چیز جس سے بچا جانا چاہیے میں نے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے، اگر پابندیوں کے باوجود افغانستان افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے جب امریکی وہاں موجود تھے تب بھی آدھے سے زائد افغان آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے، جب ایک ملک جو اپنے بجٹ کے پچھتر فیصد کےلئے غیر ملکی امداد پر انحصار کر رہا ہو جب آپ امداد بند کر دیں اور اس ملک پر پابندیاں عائد کر دیں تو یہ انسان کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے، چین، پاکستان، ہمسایوں، زرعی ملکوں اور سب کو جو لازماً کرنا چاہیے وہ یہ کہ امریکیوں کو قائل کریں کہ افغانستان کے حوالے سے آگے بڑھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کیونکہ اگر افغانستان میں افراتفری ہوتی ہے تو و وجہ جس کےلئے امریکہ نے بنیادی طورپر افغانستان کا رخ کیا تھا وہ دہشت گردی تھی اور اگر افغانستان میں افراتفری ہوتی ہے اور طالبان کی حکومت کمزور ہوجاتی ہے تو وہ بین الاقوامی دہشت گردوں جیسا آئی ایس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو گی، مجھے نہیں سمجھ آئی کہ سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کے بارے میں شکوک و شبہات کیوں پائے جاتے ہیں، اس کی کوئی تک نہیں بنتی جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اور میں بطور وزیراعظم آپ کو بتاتا چلوں کہ میری اولین ترجیح پاکستان کی بائیس کروڑ عوام ہیں، ہماری آبادی کا تقریباً پچیس سے تیس فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے ہے،پاکستان میں گزشتہ تیس سالوں میں خاص طور پر رویہ زوال ہوئے ہیں ان دو خاندانوں کے ملک لوٹنے کےلئے باریاں لینے کی وجہ سے اور پھر یقیناً امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے جو پاکستان کےلئے تباہ کن ثابت ہوا ، پاکستان کو کبھی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا، نائن الیون کے بعد پاکستان کو اسی ہزار افراد کا جانی نقصان ہوا جبکہ ہمیں معیشت میں سوارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، ہماری اولین ترجیح اس وقت اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کرنا ہے، میری حکومت کا سارا زور جیواکنامکس پر ہے، ہم اپنی معیشت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا چاہتے ہیں، چین نے جو حاصل کیا ہے اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور ہم چین کو بطور نمونہ دیکھتے ہیں کیونکہ کسی قوم نے قلیل وقت میں اپنے لوگوں کو غربت سے نہیں نکالا جیسا کہ چین نے کیا، میرا مقصد یہ ہے کہ میں کیسے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالوں اور اپنے ملک میں دولت کی ریل پیل ہو، ہم سی پیک اور گوادر کو اپنی جیو اکنامکس کےلئے ایک زبردست مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں،

جب میری حکومت اقتدار میں آئی تو بھارت سے تعلقات کے معمول پر بحالی میری ترجیح تھی جبکہ ہمارا بھارت سے صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے مسئلہ کشمیر ،بھارت کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینے سے انکار کرتا ہے اور اس مطالبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ضمانت حاصل ہے، بدقسمتی سے بھارت کشمیریوں کے اس مطالبے کو ٹھکراتا رہا، پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ علاقائی تنازعہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کیا ہے، بدقسمتی سے پاکستان یا چین کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا اور پہنچے گا، بھارتی حکومت سمجھتی ہے کہ بھارت صرف اور صرف ہندوﺅں کےلئے ہے اور ایسا کرنا بنیادی طور پر 60 یا 70کروڑ افراد کو محدود کرنے کے مترادف ہے، اب انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جس میں 20کروڑ مسلمان شامل ہیں،یہ بہت بڑا المیہ ہے جو بھارت میں ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اندر سے مسائل کا سامنا ہے اور اس کے تنازعات اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی ہیں، امید کرتا ہوں کہ بھارت کے ساتھ اچھے فیصلے ہوں گے کیونکہ جیسے جیسے صورتحال میں پیشرفت ہوئی ہے ، دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نقصان پہنچے گا، ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بھی ملک اپنی برتری کو قائم رکھ سکتا ہے کیونکہ تمام ملکوں کو ایک اعتماد سازی اور جدوجہد کے دور سے گزرنا پڑتا ہے، ان میں ایک عزم ہوتا ہے اور دوسرے ملکوں سے آگے نکل جاتے ہیں، جب ایک ملک سست روی کا شکار ہوتا ہے تو اس کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے، آخری چیز جس سے یہ دنیا بچنا چاہتا ہے و سرد جنگ ہے، میں چین اور امریکہ کے درمین رقابت کا افسوسناک رجحان دیکھ رہا ہوں، اگر یہ صورتحال ایک سرد جنگ میں بدلتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ایک سرد جنگ نہیں چاہتی، پاکستان کےلئے میری توجہ ایک چیز پر مرکوز ہے وہ یہ کہ پاکستان کے 22کروڑ لوگ جس مشکل صورتحال کا شکار ہیں ان میں سے آدھے غربت کی لکیر سے تھوڑا اوپر اور آدھے اس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، میرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے لوگوں کی کیسے دیکھ بھال کی جائے اور انہیں سہولتیں پہنچائی جائیں کیونکہ ہم ہر طرح کے تنازعات سے بچنا چاہتے ہیں،

ہم پاکستان کا وہ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جو 1970میں کیا تھا، ہم نے چین اور امریکہ کو ایک میز پر بٹھایا تھا، میں پاکستان کو دوبارہ وہی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں بجائے اس کے ہم مخالف بلاکس میں گھر جائیں تو اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا اس صورتحال سے بہت متاثر ہو گی، جب میں نے اپنے سفیر معین الحق کو سنکیانگ بھیجا تا کہ و تمام صورتحال کا جائزہ لیں اور معلومات اکٹھی کریں تو جو انہوں نے رپورٹ پیش کی وہ اس کے برعکس تھی کیونکہ جو کچھ مغربی میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے ان کی رپورٹ کے مطابق وہاں تیزی سے ترقی کا عمل جاری ہے، سنکیانگ میں چین کی جانب سے غیر معمولی توجہ دی جا رہی ہے، انہوں نے ای ٹی آئی ایم کی جانب سے دہشت گردوں کے حملوں کا بھی ذکر کیا جس کی وجہ سے کچھ سیکیورٹی مسائل درپیش ہیں لیکن جو کچھ ہمیں بتایا گیا اس طرح کی کوئی چیز سنکیانگ میں اوغیور کے خلاف موجود نہیں ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں چونکہ امریکہ بھی پاکستان کا اچھا دوست ہے لیکن چین کی طرح دوستی نہیں جو حالات کے نشیب و فراز سے بالاتر ہو، ایک وقت ایسا تھا کہ جب امریکہ کے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہ تھی اس نے کنارہ کشی اختیار کرلی، اس کے بعد دوبارہ تعلقات میں بہتری آئی،اس وقت پاکستان امریکہ کا دوست بنا اور اس نے ہماری مدد بھی کی جسے ہی سوویت یونین افغانستان سے گیا تو امریکہ نے ہم پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں، نائن الیون کے بعد پھر امریکہ سے ہمارے تعلقات استوار ہوئے

، جب وہ افغانستان میں کامیاب نہ ہوا تو اس کا ذمہ دار اس نے ہمیں ٹھہرایا، ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ اس طرح کے بالکل نہیں جیسے چین کے ساتھ ہیں، پاکستان چین کے ساتھ ہر فورم پر کھڑا رہا ہے کیونکہ جب بھی چین کو پاکستان کی ضرورت پڑی پاکستان نے چین کا ہمیشہ ساتھ دیا، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بہتر ہیں، عوام کا عوام کے ساتھ رابطہ ہے، پاکستان میں جو کوئی بھی اقتدار میں ہے اس کے چین کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں گے کیونکہ دونوں ملکوں کی دوستی عوام میں ہے