کارپٹ

ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت کیلئے نئے کاروباری ماڈل پر کام کرنے کی ضرورت ہے ‘ اعجاز الرحمان

لاہور(رپورٹنگ آن لائن) کارپٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے چیئر پرسن اعجاز الرحمان نے کہا ہے کہ ہاتھ سے بنے قالینوں کی قدیم روایتی صنعت کی زبوں حالی کے تسلسل اور اسے درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر نئے کاروباری ماڈل پر کام کرنے کی ضرورت ہے .

غیر ملکی خریداروںکے رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزنس ٹو بزنس اور بزنس ٹو کنزیومر برآمدات کی حکمت عملی کیلئے پیشرفت کی جائے ،کئی دہائیوں کاغیر معمولی تجربے رکھنے والوں اور نوجوان نسل کے آئیڈیاز کے امتزاج سے اس صنعت کی ڈوبتی سانسیں بحال کی جاسکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے اپنے دفتر میں ہاتھ سے بنے قالینوں کے مختلف شعبوں کے ماہرین سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

چیئر پرسن سی ٹی آئی اعجاز الرحمان نے کہا کہ حکومت کو لاکھوں افراد کو روزگار کی فراہمی اور ملک کے لئے قیمتی زر مبادلہ لانے کے حوالے سے ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت کی خدمات کا بر ملا اعتراف کرنا چاہیے ۔اس صنعت سے وابستہ کاریگر وں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا ہے جس کا ثبوت پاکستانی قالینوں کامختلف عالمی نمائشوں میں اپنے اعلیٰ معیار اورجدید ڈیزائنوں کی بدولت کئی ایوارڈز جیتنا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ہاتھ سے بنے قالین پاکستان خاص طور پر پنجاب کی اہم برآمدی صنعت ہے ، ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت قیام پاکستان کے بعد برآمدات کے ذریعے زر مبادلہ لانے والی پہلی صنعت تھی تاہم حالیہ برسوں میںآنے والی حکومتوں کی جانب سے اسے درکار ضروری تعاون اور معاونت دی گئی اور نہ اس طرح حوصلہ افزائی کی گئی جو اس کی ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ صنعت انتہائی مشکلات کا شکار ہے ۔

پاکستان ہاتھ سے بنے ہوئے قالینوں کا دنیا میں سب سے بڑاپروڈیوسر اور برآمد کنندہ بھی رہا ہے ،چند دہائیوں سے پاکستان اپنی مارکیٹ کھو رہا ہے اور یہ تسلسل جاری ہے ۔برآمدات میں کمی اور مختلف وجوہات کی بناء پر دیگر ممالک کے مقابلے میں قیمتوں کا زیادہ ہونا بھی اس صنعت کے لئے تباہی کا باعث ہے اس لئے حکومت اس طرز پر معاونت کرے جس سے اس کی پیداواری لاگت کم ہو سکے ۔ہنر مند جو اس صنعت سے دور ہو رہے ہیں ان کیلئے حکومت ،مینو فیکچررز اور برآمد کنندگان کے اشتراک سے خصوصی سکیم لائی جائے تاکہ لاکھوں لوگ جو اپنے گھر کی دہلیز پر روزگار حاصل کر رہے ہیں وہ اس صنعت سے جڑے رہیں ۔