شہبازاکمل جندران۔۔
لاہور میں اے ڈی آر(اصل مالک کی بجائے نمائندے کے ذریعے بائیومیٹرک تصدیق )کے تحت گاڑیوں کی ملکیت تبدیل کرنے والے ملازمین کو چارج شیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ڈائیریکٹر انفورسمنٹ اینڈ آڈٹ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب قمرالحسن سجاد نے ایک خط ڈائیریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ریجن اے لاہور نعمان خالد کو لکھا یے جو ADR معاملے میں ڈائیریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی طرف سے بنائی جانے والی ٹیم کو لیڈ کررہے رھے۔

خط میں قمرالحسن سجاد نے ٹیم لیڈر کو اے ڈی آر میں ملوث ملازمین کی ڈرافٹ چارج شیٹ تیار کرکے محاذ اتھارٹی کو ارسال کرنے اور سرکاری خزانے کو پہنچائے جانے والے Revenue Loss بھی بیان کرنے کو کہا ہے۔
ذرائع کر مطابق ڈائریکٹر جنرل ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب ڈاکٹر آصف طفیل کی ہدایات پر ڈائیریکٹر ایکسائز ریجن اے لاہور نے سسٹم اینالسٹ محمد سلیم اور آڈیٹرذیشان حسن کے ہمراہ اے ڈی آر کے تحت ٹرانسفر ہونے والی گاڑیوں کے متعلق چھان بین کی تو حیران کن نتائج سامنے آئے تھے
رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں 9 انسپکٹروں نذیر بھٹی، شیخ رمضان، رائے زاہد، اظہر بشیر، محمد ریاض، غلام محی الدین، جہانگیر وٹو اور محمد فاروق کو اے ڈی آر کی اتھارٹی دی گئی جس کے تحت ان 9 انسپکٹر نے 11 جنوری سے اکتوبر تک 2 ہزار سےبزائد گاڑیوں کی ملکیت اصل مالکان کی بائیومیٹرک کے بغیر ہی تبدیل کر ڈالی اور مبینہ طور پر فی گاڑی 20 سے 50 ہزار روپے رشوت وصول کی۔
ذرائع کے مطابق آڈٹ افسر اس امر پر حیران رہ گئے کہ مو ٹر برانچ کے انسپکٹروں نے ADR کی اصطلاح اور سسٹم کیسے استعمال کیا، کمپیوٹر میں کمانڈ کس نے جنریٹ کی، کس کے حکم سے پی آئی ٹی بی نے موٹر وہیکلز رولز 1969کے رول 47 اے کو مکمل نظر انداز کرکے کمپیوٹر میں اے ڈی آر کی گنجائش پیدا کی۔کیونکہبقانون میں اے ڈی آر کا کہیں ذکر ملتا یے نہ ہی کوئی گنجائش ہے۔
ذرائع کے مطابق سابق ڈائیریکٹر موٹرز لاہور قمرالحسن سجاد نے اس وقت کے پروگرامر محمد یونس کے ذریعے رول 47 اے کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور عوام کو Facilitate کرنے کے نام پر غیر قانونی عمل کرڈالا۔
علم میں آیا ہے کہ اے ڈی آر کے ذریعے تبدیلی ملکیت کی حامل گاڑیوں کی ٹرانزکشن غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی لیگل ویلیو نہیں یے۔ اور سابق ڈائیریکٹر ریجن سی لاہور اور موجودہ ڈائیریکٹر ای اینڈ اے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن قمرالحسن سجاد نے ADR کا عمل خود شروع کروایا اور اب تمام تر ذمہداری ماتحت ملازمین یا انسپکٹروں پر ڈال دی ہے۔ حالانکہ ڈائیریکٹر مذکور نے ان انسپکٹروں کے اے ڈی آر اتھارٹی کے استعمال کے لئے نہ صرف تعیناتی کے آرڈر جاری کئے بلکہ پروگرامر یونس کے ذریعے ان کو کمپیوٹر سسٹم میں کمانڈ یا Authority بھی دی جو دوسروں کے پاس نہ تھی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ قمرالحسن سجاد نے اپنے چہیتے انسپکٹروں کو اس عہدے پر تعینات کیئے رکھا اور اے ڈی آر کی اتھارٹی صرف مخصوص انسپکٹرہی استعمال کر تے رہے اور مبینہ طور پر روزانہ جیبیں بھر بھرکر گھر جاتے رہے۔