اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن) وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ کوشش ہے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے کیونکہ ہم مفت میں حکومت نہیں چلا سکتے، ایس ڈی پی میں صوبہ بلوچستان کے حصے میں گزشتہ چند سالوں میں اضافہ کیا گیا ، رواں سال کے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے 130 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
جمعہ کو سینیٹ اجلاس میں سینیٹر دنیش کمار اور کامران مرتضی کے سوال پر وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے پیش کیے گئے تحریری جواب بتایا گیا کہ بلوچستان میں پی ایس ڈی پی کے 1429 ارب روپے کے 200 منصوبے جاری ہیں، 30 جون 2024 تک 381.2 ارب روپے کے اخراجات ہوئے جب کہ سال 2024-25 کے دوران پی ایس ڈی پی کے لیے 130 ارب روپے مختص کیے گئے۔اس حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ہم اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کو اس کے حصے سے زیادہ دیا جائے، 2022 میں بلوچستان کی پی ایس ڈی پی کے84 ارب کی مختص رقم بجٹ میں بڑھا کر 126 ارب روپے کی، جب بلوچستان کا کوئی منصوبہ کمیشن میں آتا ہے تو ہم اسے تیزی سے منظور کرتے ہیں۔
بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے اس کے حصہ سے زیادہ وسائل فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاق کے محاصل میں10ہزار ارب روپیہ آتا ہے اور قرضوں کی ادائیگی بھی 10 ہزار ارب ہے، جتنا پیسا آتا ہے سب قرض ادائیگی میں چلا جاتا ہے، باقی اخراجات کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، کوشش ہے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے، ہم مفت میں حکومت نہیں چلا سکتے۔احسن اقبال کا کہنا تھاکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم سکڑے گا تو پھر ہر منصوبہ سست روی کا شکار ہوگا، ہم نے 2018 میں ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب چھوڑا تھا جو سکڑ کر 2022 میں 800 ارب رہ گیا، اسی رفتار سے کام کر رہے ہوتے تو آج ترقیاتی بجٹ 3000 ارب روپے ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ وزارتیں منصوبوں پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہیں۔ ہر وزارت منصوبوں کی اہمیت اور کام کی رفتار کے تناظر میں بجٹ کو دوبارہ مختص کر سکتی ہے ۔ بلوچستان سے متعلق منصوبوں کی ترجیحی بنیادوں پر منظوری دیتے ہیں۔ پی ایس ڈی پی کا حجم 4 فیصد ہے۔ 40 فیصد صوبائی نوعیت کے ہیں۔
وفاقی حکومت کے پاس ترقیاتی فنڈز کی کمی ہے۔ اپنے وسائل کے اندر رہ کر منصوبے مکمل کر تے ہیں۔ وفاقی حکومت کے کل محاصل 10ہزار ارب ہیں قرضوں کی ادائیگی کا حجم بھی 10ہزار ارب ہے۔یہ محاصل قرضے ادا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، تنخواہوں سمیت دیگر امور کے لئے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ حکومت نے ٹیکس محصولات اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافے اور اخراجات کی کمی پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔