شہبازاکمل جندران۔۔
لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس شاہد وحید نے سوموار 24 اکتوبر کو ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ملازمین کے لئے ایک بڑا فیصلہ دیا ہے۔
عدالت عالیہ نے ڈائیریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ڈائریریکشنز جاری کرتے ہوئے ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران کی زیر التوا درخواست نمٹانے کا فیصلہ سنایا۔
عدالت کے روبرو ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران نے موقف اختیار کیا کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں 1995 میں گاڑیوں کے ڈیٹا کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تو ڈیٹا انٹری آپریٹرز، انسپکٹرز اور موٹر رجسٹرنگ اتھارٹیز کے وقتا”فوقتا” پاسورڈز جنریٹ کرنے ، انہیں مختلف نوعیت کی مخصوص کمپیوٹر Access دینے، ان ملازمین کے کمپیوٹرائزڈ عمل پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے، کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا کو محفوظ بنانےاور ٹائم ٹو ٹائم عوامی سہولت کی خاطر نئی کمپیوٹرائزڈ اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ڈی بی ایز اور پروگرامرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کمپیوٹر ماہرین کی خدمات سےاستفادہ کرتے ہوئے جاں ایک طرف مثبت نتائج حاصل کیے گئے وہیں چیک اینڈ بیلنس کی عدم موجودگی میں یہ ڈیٹا بیس ایڈمنسٹریٹراور پروگرامر اب محکمے کے لئے چیلنج بن گئے ہیں۔
درخواست گزار کاکہنا تھا کہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں کمپیوٹر(سسٹم) استعمال کرنے والے ہر چھوٹے بڑے ملازم کی کمپیوٹرائزڈ لاگ ہسٹری جنریٹ ہوتی ہے۔
لیکن حیران کن طورپر ڈی بی ایز، پروگرامرز اور سسٹم اینالسٹ کی طرف سے محکمے کا کمپیوٹر استعمال کرنے پر کسی قسم کی لاگ ہسٹری Generate ہی نہیں ہوتی۔
ڈی بی ایز، پروگرامرز اور سسٹم اینالسٹ محکمے کے کمپیوٹر پر بیٹھ کر اچھا کریں یا برا، جعلسازی کریں یا نہ کریں ان کا ریکارڈ کمپیوٹر میں باقی نہیں رہتا۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ڈیپارٹمنٹ کے تمام ڈائیریکٹر، ایم آر ایز اور ڈی ای او، جے سی اوز چاہتے ہیں کہ جس طرح ان کے کمپیوٹرز کی لاگ ہسٹری ڈیجیٹل ریکارڈ کا حصہ رہتی ہے اسی طرح ڈی بی ایز، پروگرامرز اور سسٹم اینالسٹ کی لاگ ہسٹری بھی ریکارڈ میں دستیاب ہو۔
درخواست گزار ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران نے عدالت کو بتایا کہ اس نے 23 ستمبر کو ڈائیریکٹر جنرل ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو درخواست دی تھی کہ ڈی بی ایز، پروگرامرز اور سسٹم اینالسٹس کا 12 برسوں کا فرانزک آڈٹ کیا جائے اور ان کی لاگ ہسٹری جنریٹ کی جائے تاہم ایک ماہ گزرنے کے باوجود اس کی درخواست پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ عدالت نے ڈی جی ایکسائز کو فی الفور درخواست نمٹانے کی ڈائیریکشنز جاری کرتے ہوئے رٹ پٹیشن نمٹادی۔