اسد عمر

ڈالر پھینک کر روپے کی قدر کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا ہے،اسدعمر

کراچی(رپورٹنگ آن لائن)وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمرنے ہفتے میں دوروز کاروبار بند کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہاہے کہ کابینہ میں مجھ پر تنقید کی جاتی ہے کہ سارا پیسہ کراچی لے جاتے ہیں، اسٹیل مل کو چلانے کے لئے چار کمپنیاں اگست میں آرہی ہیں، کراچی کے لیے 900 میگاواٹ کا وعدہ کیا تھا 1000 میگاواٹ دیں گے،

کراچی میں سرکلر ریلوے کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، سی پیک کے ذریعے پاکستان میں روزگارکے مواقع بڑھیں گے،سی پیک نہ صرف چل رہا ہے بلکہ اس میں توسیع بھی ہورہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ کراچی میں گرین لائن بس سروس اگست میں شروع کردیں۔ہمارے لیے مہنگائی بہت بڑا چیلنج ہے۔عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔

ڈالر پھینک کر روپے کی قدر کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہفتہ کو وفاق ایوانہائے صنعت وتجارت (ایف پی سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر تاجروصنعت کاروں سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں کورونا کیسسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کراچی میں ہفتے کے دو روز کاروباری مراکز بند کرنے کا حکومتی فیصلہ درست ہے، کیونکہ کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے رش کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ وائرس سے بچائو کیلیے اگر بروقت اقدامات نہ کیے تو پوری معیشت بندکرنی پڑسکتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ سی پیک کے ذریعے پاکستان میں روزگارکے مواقع بڑھیں گے۔سی پیک نہ صرف چل رہا ہے بلکہ اس میں توسیع بھی ہورہی ہے

۔ سی پیک کے پہلے صنعتی زون میں چین نے سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے، 11 سال کے بعد 6 ماہ تک 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی ترسیلات لگاتار موصول ہوئیں، ایشیا میں ترقی کرتے ممالک نے اپنی برآمدات پر توجہ دی۔

انہوں نے کہاکہ فیصل آبادا کنامک زون کاافتتاح ہوچکاہے، سی پیک میں وسعت آرہی، اہم فیز شروع ہورہا ہے، سی پیک کے پہلے صنعتی زون میں چین نے سرمایہ کاری شروع کردی ہے، منصوبے کے مغربی روٹ پرموجودہ حکومت نے بہت کام کیا ہے، اس منصوبے کے ذریعے ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

سی پیک کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ایم ایل ون ہے جو اگلی جوائنٹ کمیٹی میں فائنل ہوجائے گا ۔اب روزگار اور ترقی کے معاملات پر کام ہورہا ہے۔چائنا کی ایک بڑی کمپنی کا بڑا شپ لگنے والا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ گرین لائن منصوبے پر پیش رفت جاری ہے اور ہماری کوشش ہے کہ کراچی میں گرین لائن بس سروس اگست میں شروع کردیں ۔انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ سے پپری تک پائپ لائن بچھائی جائے گی، منصوبے کے لیے بڈنگ دی جا چکی ہے، بی او ٹی کی بنیاد پر ہوگا۔

کراچی کو رواں سال 900 میگا واٹ کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا، انشا اللہ 900 نہیں کراچی کو ایک ہزار میگا واٹ دیں گے۔ بڑی صنعتوں میں ترقی کی شرح دو اعداد سے زیادہ ہے، جو بھی ترقی ہونی ہے اس کے لیے حکومت صرف سہولت کار ہو سکتی ہے۔کے 4 منصوبے سے متعلق واپڈا کو ذمے داری دی گئی ہے۔

محمود آباد، اورنگی اور گجر نالے سے متعلق مسئلہ تھا، محمود آباد سے تجاوزات کو ہٹایا جا چکا ہے۔ امید ہے سال کے آخر تک وفاقی حکومت کے سارے منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔ کابینہ میں مجھ پر تنقید کی جاتی ہے کہ سارا پیسہ کراچی میں لگ رہا ہے ۔میں نے انہیں قائل کیا کہ جو پیکج دیا وہ کراچی کا حق ہے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اسٹیل مل خو چلانا چاہتے ہیں اور اگست میں چار بڑی کمپنیز آرہی ہیں جو اس پر کام کرینگی، ملک میں مہنگائی بہت بڑا چیلنج ہے، جس کو کنٹرول کرنے کے لئے وزیراعظم خود سنجیدہ ہیں لیکن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔

ملک میں سیمنٹ کی پیداوارمیں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، مہنگائی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، عالمی منڈی میں اجناس کی قیمت تیزی سے بڑھی ہے، اسحاق ڈار نے ڈالر کے حوالے سے کیا کیا سب نے دیکھا۔ ڈالر پھینک کر روپے کی قدر کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

تحریک انصاف کی ڈھائی سال کی حکومت میں روپے کی قدر میں 16 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈالر 168 روپے سے کم ہوکر 153 روپے کا ہوگیا ہے۔اسد عمر نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں جتنا بڑا ظلم ہو رہا تھا اسے صرف نظر نہیں کر سکتے، وزیر اعظم نے بھارت سے تجارت کے متبادل کے حوالے سے ہدایت کی ہے۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کے سینٹرل فاروڈ ہم نہیں پاکستان کے صنعتکار ہیں۔

کورونا کے باوجود برآمدی اور ویلیو ایڈڈ سیکٹر کی صنعتوں کو بالکل بند نہیں کرنا چاہتے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ اسد عمر روایتی سیاست دان نہیں ہیں ۔آج ان سے کھل کر بات ہوئی ہے ۔جب تک یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملک کون چلاتا ہے مسائل میں اضافہ ہوگا ۔

اپنے ایسا ماحول بنادیا گیا کہ بزنس مین چور ہے۔ایف بی آر کا رویہ بزنس کمیونٹی کے ساتھ ٹھیک نہیں۔کوئی انڈسٹری ایف بی آر کے پاس جائے تو سنی نہیں جاتی ۔انہوںنے کہا کہ ود ہولڈنگ کے ذریعہ 70فیصد ٹیکس ملک کا جمع ہوتا ہے۔ہمیں سمجھ نہیں آتا ایف بی آر میں 30ہزار لوگ کیوں رکھے۔ہم نے تجویز دی کہ کہ ہمیں ٹیکس اکھٹا کرنے دیں۔ہم ایف بی آر سے زیادہ ٹیکس جمع کرکے دیںگے ۔

جو مال خریدنے جائے اسکے لئے این آئی سی دودنیا بھر میں ایسے قوانین نہیں ہوتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ دنیا سستی بجلی کی طرف جارہی ہےْ ہمارے ملک میں بجلی مسلسل مہنگی کرتے جارہے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے سے پیدواری لاگت بڑھ گئی ہے۔

برآمدات ، برآمدات کی باتیں ہورہی تھی اب کیا صورتحال ہے ۔آئی پی پیز کے مسئلے نے پورے ملک کو بٹھادیا ہے ۔ملک میں کاٹن کی فصل آدھی رہ گئی ہے ۔حکومت کو اب تین سال ہوگئے ہیں ۔انہیں روایتی چیزوں سے نکلنا ہوگا حکومت کو طویل المدتی پالیسی بنانا ہوگی ۔