بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) شی زانگ کے بارے میں میرا پہلا تاثر خوبصورت برف پوش پہاڑوں اور صاف جھیلوں کا نہیں تھا، بلکہ بچپن میں نصابی کتابوں اور ریڈیو پر سنی ہوئی خوفناک کہانیوں کا تھا: پرانا شی زانگ مذہب اور ریاست کے اتحاد پر مبنی جاگیردارانہ غلامی کا نظام تھا، جہاں 95% آبادی انتہائی غربت اور ظلم میں زندگی گزارتی تھی۔ یہاں بسنے والے افراد کو انفرادی آزادی تک حاصل نہیں تھی، انہیں خریدا اور بیچا جا سکتا تھا.
سزا دی جا سکتی تھی، حتیٰ کہ قتل بھی کیا جا سکتا تھا۔ غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کی آنکھیں نکالنے، پاؤں کاٹنے جیسے مظالم کرتے تھے، بلکہ ان کی کھال سے ڈرم بھی بنائے جاتے تھے۔ یہ تصاویر میرے ذہن پر ایسی چپک گئی تھیں کہ سالوں بعد، اگرچہ شی زانگ کو “زمین پر جنت” کے طور پر جانا جاتا ہے، میں اب بھی اس سے ڈرتا ہوں۔ آج بھی تبت میں ” سرفوں کی آزادی کے لئے میموریل ہال ” میں پرانے تبت کے تاریک دور کی تصاویر اور نوادرات خاموشی سے اس ظالمانہ نظام کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس وقت کا شی زانگ “شانگریلا” کم اور جہنم زیادہ لگتا تھا۔
خوشخبری یہ ہے کہ آج کا شی زانگ یکسر بدل چکا ہے، اور میرے سابق ساتھی مسٹر لو کی کہانی اس کی بہترین مثال ہے۔تیس سال پہلے لو نے ہمارے شعبے سے استعفیٰ دے کر کاروبار شروع کیا، لیکن پھر کاروباری زندگی کے دکھاوے سے اکتا کر اکیلے سفر کرنے نکل پڑے۔ وہ چین کے مختلف حصوں میں گھومتے رہے، اور آخر کار لہاسا میں بس گئے، جہاں انہوں نے ایک چھوٹا سا ہوٹل کھولا۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ لہاسا کی زندگی آرام دہ اور پُرسکون ہے،جدید سہولیات اور دیہاتی سادگی کا ایساامتزاج ہے کہ مادی زندگی میں چین کے ترقی یافتہ شہروں جیساہے، لیکن بڑے شہروں کے مقابلے میں نسبتاً کم چہل پہل ہے۔ہوٹل چلانے کے علاوہ وہ بازار میں گھومتے، تبتی اور ہان قومیت کے دوستوں کے ساتھ چائے پی کر گپ شپ لگاتے ہیں، اور “فرشتوں جیسی زندگی” گزارتے ہوئے انہوں نے وہاں دس سال سے زائد عرصہ گزارا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بعد میں اپنے آبائی شہر سوچو واپس آ گئے، اور نواح میں ایک چھوٹا سا صحن خرید کر اسی طرح کی پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔
مسٹر لو کی لہاسا والی زندگی پرانے شی زانگ میں ناقابل تصور تھی۔ آزادی کے بعد، شی زانگ کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور معیشت میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔ سڑکوں، ریلوے اور ہوائی اڈوں کی تعمیر نے تبت کو کھول دیا ہے؛ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات نے مقامی لوگوں کے بچوں کو اپنی قسمت بدلنے کا موقع دیا ہے؛ سیاحت اور مقامی صنعتوں نے لوگوں کو خوشحال زندگی دی ہے۔ مسٹر لو کی کہانی دراصل جدید شی زانگ اور جدید طرز زندگی سے ہم آہنگ معاشرے کا ایک بلاواسطہ ثبوت ہے۔
ایک اور کہانی میرے ہائی اسکول کے دوست ڈیوڈ کی ہے، جن کا شی زانگ کے لیے جنون تبتی ثقافت کے منفرد حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کئی بار شی زانگ جا کر مقدس مقامات کی زیارت کی، تبتی بدھ مت کے زندہ بدھ کے ساتھ دھرم پر تبادلہ خیال کیا، اور ان کی ہدایت پر شی زانگ کے مقدس پہاڑوں کی زیارت کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مقامی تبتی لوگ انتہائی مذہبی ہیں، اور ان کے عقائد کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ شی زانگ نے ان کے دل کو پاک کر دیا، اور وہاں کے سادہ لوح اور مہربان لوگوں نے انہیں زندگی کی حقیقی خوبصورتی سے روشناس کرایا۔ انہوں نے مجھ سے سنجیدگی سے کہا کہ زندگی میں ایک بار شی زانگ ضرور جانا چاہیے۔
ڈیوڈ کی اہلیہ بھی میری ہم جماعت تھیں، اور وہ دونوں مڈل اسکول کے کلاس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ یہ ایک اور خوبصورت محبت کی کہانی ہے، جس پر یہاں تفصیل سے بات نہیں کروں گا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اگرچہ ان کا کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے، لیکن جب انہوں نے شی زانگ کے مقدس مقام جوخانگ ٹیمپل کی چوکھٹ پر قدم رکھا تو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ نکلے۔ یہ جذباتی تجربہ شاید شی زانگ کے راز اور پاکیزگی کی علامت ہے۔
آج کے تبت میں مذہبی آزادی کا مکمل احترام کیا جاتا ہے، تبتی بدھ مت کے مندر، پرچم اور پریئنگ وہیلز روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں، جبکہ تبتی پینٹنگز، تعمیرات اور موسیقی جیسی ثقافتی روایات جدید معاشرے میں نئی زندگی پا رہی ہیں۔ یہ شی زانگ کے بارے میں میری چند کہانیاں تھیں تازہ ترین کہانی 28 مارچ کو منائے گئے “ملین سیرفس ایماںسیپیشن ڈے” کی ہے، جب تب شی زانگ کے مختلف گروہوں کے نمائندوں نے پوٹالا پیلس کے سامنے تقریب منعقد کی۔ 1959 میں اسی دن کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں شی زانگ کے لوگوں نے غلامی کے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا، اور ملین غلام پہلی بار اپنی قسمت کے مالک بنے۔
یہ آزادی نہ صرف نظام کی تبدیلی تھی، بلکہ انسانی شعور کی بیداری تھی—ظلمت سے روشنی کی طرف، پسماندگی سے ترقی کی طرف۔ 66 برسوں میں تبت کی تبدیلی انسانی تاریخ کا معجزہ ہے: اوسط عمر 35 سال سے بڑھ کر 72 سال ہو گئی ہے، شرح ناخواندگی 95% سے کم ہو کر اب بنیادی طور پر صفر ہو گئی ہے، جی ڈی پی ہزاروں گنا بڑھ گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شی زانگ کے لوگوں کو حقیقی عزت اور حقوق ملے ہیں۔۔۔وہ آزادی سے پیشہ اختیار کر سکتے ہیں، تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں، اور محنت سے تاجر، عالم یا فنکار بن سکتے ہیں۔
شی زانگ کی کہانی مصائب سے نئی زندگی تک کی ایک داستان ہے۔ پرانے شی زانگ کی تاریکی تاریخ کے دھارے میں بہہ چکی ہے، اور آج کا شی زانگ خود اعتمادی سے دنیا کے سامنے ابھر رہا ہے۔ شی زانگ کے بارے میں تعصبات اور غلط فہمیاں حقیقت کے سامنے بے معنی ہیں۔ شی زانگ کا مستقبل اور بھی روشن ہو گا، اور اس کے ماضی اور حال کو سمجھنا تاریخ کو خراج تحسین پیش کرنے اور سچائی کا تحفظ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا میں اب شی زانگ جانا چاہوں گا، تو میرا جواب شاید “ہاں” ہوگا۔