پاکستانی تاجروں 39

چین کے ای وو شہر نے بڑی تعداد میں پاکستانی تاجروں کی تو جہ حا صل کر لی

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) ایک چھوٹا سا چینی شہر ا ی وو بہت سے پاکستانی دوستوں کے لیے انتہائی مانوس ہے۔ منگل کے روز چینی میڈیا کے مطابق عالمی سطح پر چھوٹی اشیاء کی تجارت کے ایک مرکز کے طور پر ، ای وو نے بڑی تعداد میں پاکستانی تاجروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جو یہاں تجارتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں ۔

اس مارکیٹ میں مصنوعات کی اقسام کی بھرمار ہے، جو چھوٹے گھریلو آلات، اور روزمرہ کی اشیاء وغیرہ جیسی مصنوعات میں پاکستانی تاجروں کی متنوع ضروریات کو پورا کرتی ہے، اور یہ پاکستانی تاجروں کے لیے اپنے کاروباری خوابوں کو پورا کرنے کا اہم پلیٹ فارم بن گئی ہے۔ حال ہی میں فوڈان یونیورسٹی میں منعقدہ بیلٹ اینڈ روڈ انٹرنیشنل فورم میں، ای وو ایک بار پھر عالمی اسکالرز کی توجہ کا مرکز بنا ۔ چھوٹی اشیاء کا یہ دارالحکومت نہ صرف “پوری دنیا سے خریداری اور پوری دنیا کو فروخت” کا تجارتی کرشمہ تخلیق کر رہا ہے، بلکہ اس نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بارہ سالہ سفر کو خیال سے عمل تک پہنچانے کی عملی تصویر بھی پیش کی ہے۔

جبکہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا جیسے خطوں کے لیے، ای وو کی موجودگی محض تجارت سے آگے بڑھ کر عوامی زندگی کو بہتر بنانے اور معیشت کو فعال کرنے کا اہم انجن بن چکی ہے۔
ای وو کا عروج خود عالمگیریت کی ایک داستان ہے، جو ایک زمانے کے چھوٹے بازار سے آج 200 سے زائد ممالک اور خطوں پر محیط تجارتی مرکز تک پہنچا ہے۔ اس شہر کی ترقی کی راہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے گہرے طور پر ہم آہنگ ہے۔ 2013ء کے بعد سے، ای وو-سنکیانگ- یورپ ریلوے کے افتتاح اور ای وو-نین بو –ژو شان اوپن چینل کے مکمل ہونے کے ساتھ، “ریل، سڑک، ہوا، دریا اور سمندر” کا ایک چھ جانبی ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ نیٹ ورک تعمیر ہوا ہے ۔ 13,052 کلومیٹر طویل چائنا یورپ ریلوے، جو شمالی نصف کرہ کو جوڑنے والی سنہری پٹی کی مانند ہے، چھوٹی اشیاء کو یوریشیا کے اندرونی خطوں تک پہنچا رہی ہے۔ جبکہ ای وو انٹرنیشنل ہب پورٹ کے آغاز کے ساتھ، سامان براہ راست نین بو کی ژُوشان بندرگاہ سے پوری دنیا میں جاتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ای وو کے خریداری کے منفرد ماڈل کی وجہ سے نقل و حمل کے سلسلے میں چھوٹے بیچز میں اشیاء کو اکٹھا کرنے اور لچکدار ادائیگی کی سہولت دستیاب ہے۔ یہ لچکدار سروس سسٹم جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی ضروریات کے عین مطابق ہے، اور عام کاروباری افراد کو کم لاگت میں عالمی مارکیٹ تک رسائی فراہم کرتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے لیے، ای وو کا اثر معاشی ترقی اور عوامی زندگی کی بہتری کے ہر پہلو میں سرائیت کر چکا ہے۔ ہر روز ہزاروں جنوبی ایشیائی تاجر ای وو انٹرنیشنل ٹریڈ سٹی کے راستوں میں گھومتے نظر آتے ہیں، جو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور دیگر ممالک سے سامان خریدنے آتے ہیں۔ یہ تاجر کپڑے اور الیکٹرانکس سے لے کر روزمرہ استعمال کی اشیاء اور سجاوٹی سامان تک ہر قسم کی مصنوعات تلاش کرتے ہیں، جو بعد میں جنوبی ایشیائی ممالک کی مارکیٹوں، دکانوں اور گھروں میں نظر آتی ہیں۔ ای وو میں، غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کی تعداد 10,000 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں سے 81 فیصد بیلڈ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے شراکت دار ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی تاجر “ہم وطن ہم وطن کی مدد کرتے ہیں” کے کاروباری انداز کی بنیاد پر، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ جیسی وسیع تر مارکیٹوں میں مضبوط تجارتی نیٹ ورک تشکیل دے چکے ہیں۔

ای وو کا عملی نمونہ بیلڈ اینڈ روڈ کے بنیادی اصول “مشترکہ مشاورت، تعمیر اور اشتراک” کی زندہ تشریح پیش کرتا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے، ای وو کی تجارتی شکلیں مسلسل ترقی کر رہی ہیں۔ چائناگُڈز پلیٹ فارم کے مصنوعی ذہانت سے مربوط ہونے کے بعد، تاجر محض اپنی ضروریات بیان کر کے تیزی سے مصنوعات حاصل کر سکتے ہیں۔ آرڈر دینے کے تین دن کے اندر ہی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہو سکتی ہے۔ 24 گھنٹے ڈیجیٹل اینکرز کے ذریعے لائیو سیلنگ نے بین الاقوامی تجارت کو وقت و مقام کی حدود سے آزاد کر دیا ہے۔

جبکہ دنیا کے 54 ممالک میں قائم ای وو سے منسلک 210 بیرون ملک گوداموں اور دبئی میں بیرون ملک مارکیٹ کی تعمیر نے جنوبی ایشیا جیسے خطوں میں سامان کی منتقلی کی کارکردگی کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے اور لاجسٹکس کی لاگت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ “آن لائن + آف لائن” اور “ملکی + بیرون ملک” ڈھانچہ نہ صرف ای وو کی مصنوعات کو جنوبی ایشیائی مارکیٹوں تک آسانی سے پہنچاتا ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کی خصوصی زرعی مصنوعات اور دستکاریوں کے لیے چین کے دروازے بھی کھولتا ہے، جس سے دوطرفہ فائدے پر مبنی تجارتی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔
آج کا ای وو محض سامان کا مرکز نہیں رہا، بلکہ یہ ” گلو بلائزیشن 2.0″ کا ایک نیا مرکز بن چکا ہے۔ یہ مارکیٹ کی طاقت کے ذریعے جغرافیائی معاشی ڈھانچے کو نئی شکل دے رہا ہے، اور عوامی فلاح پر مبنی تجارتی تعاون کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اعتماد کے پل تعمیر کر رہا ہے۔

جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے لیے، ای وو نہ صرف سستی اور معیاری مصنوعات فراہم کرتا ہے، بلکہ ترقی کے مواقع اور تعاون کی گنجائش بھی مہیا کرتا ہے۔ پوری دنیا کے لیے، ای وو کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کوئی خیالی تصور نہیں، بلکہ عوامی زندگی کی بہتری اور معاشی ترقی کی واضح اور محسوس ہونے والی مثال ہے۔ عالمگیریت کے رجحانات میں تبدیلی کے اس دور میں، اس چھوٹے سے چینی شہر کے عملی نمونے نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ صرف کھلے پن، رواداری اور باہمی مفاد کو برقرار رکھتے ہوئے ہی ترقی کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ ممالک اور عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی سب سے گہری قوت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں