رپورٹنگ آن لائن محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب میں گاڑیوں کی ملکیت کی منتقلی کے لیے متعارف کردہ “پیپر لیس ٹرانزیکشن سسٹم” نے نہ صرف جعلسازی کو فروغ دیا بلکہ عوامی اعتماد اور قومی خزانے کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ نیب لاہور کی حالیہ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک ہزار سات (1007) گاڑیاں ایسی بھی رجسٹر اور منتقل ہوئیں، جن میں فروخت کنندہ کی بایومیٹرک تصدیق سرے سے ہوئی ہی نہیں، لیکن سسٹم میں دونوں فریقین کی بائیو میٹرک تصدیق ظاہر کرتا ہے۔
یہ تمام معاملہ اس وقت شروع ہوا جب محکمہ ایکسائز نے 3 سال قبل صوبائی موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے سیکشن 32 اور موٹر وہیکل رولز 1969 کے رول 47 میں ترامیم کیں۔ ان ترامیم کے تحت گاڑیوں کی منتقلی کے لیے خریدار اور فروخت کنندہ کی بایومیٹرک تصدیق ہی کافی قرار دی گئی، جس میں گاڑی کا اصل معائنہ یا کاغذی دستاویزات کی جانچ کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی۔اس ترمیم کے روح رواں موجودہ ڈائریکٹر ایکسائز ساہیوال قمر الحسن سجاد ہیں۔
اس پالیسی کے تحت موٹر رجسٹریشن اتھارٹی (MRA) اور ایکسائز انسپکٹرز قانونی طور پر اس بات کے پابند ہو گئے کہ وہ صرف کمپیوٹر سسٹم میں موجود بایومیٹرک تصدیق کی بنیاد پر ملکیت کی تبدیلی منظور کریں، چاہے اصل مالکان، گاڑیاں اور دستاویزات پیش ہی نہ ہوں۔ جبکہ اس سے قبل، فروخت کنندہ کو خود ایم آر اے کے دفتر میں حاضر ہو کر گاڑی کے کاغذات اور اصل شناختی دستاویزات دکھانا لازم تھا۔
تاہم، اس نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض جعلساز عناصر نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (PITB) کے رانا حارث سمیت بعض آئی ٹی ماہرین سے ملی بھگت کی۔ ان افراد نے سسٹم میں تکنیکی مداخلت کر کے فروخت کنندہ کی جعلی بایومیٹرک انٹریز کیں اور کمپیوٹر پر دونوں فریقین کی تصدیق مکمل ظاہر ہونے لگی، جس پر انسپکٹرز اور ایم آر ایز نے یہ گاڑیاں ٹرانسفر کردیں۔

اور اب نیب نے اس گھپلے میں 25 ایکسائز انسپکٹرز، 14 موٹر ایم آر ایز اور ایک PITB پروگرامر رانا محمد حارث کے خلاف باضابطہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ حالانکہ ایکسائز ملازمین کا جعلسازی کے اس عمل میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ ہے۔ اور ایکسائز ملازمین ڈائریکٹر ایکسائز ساہیوال قمر الحسن سجاد کی وجہ سے آیے روز نا کردہ جعلسازی میں ملوث ہونے لگے ہیں اور عملا” گاڑیوں کی پیپرلیس ٹرانزیکشن ایکسائز ملازمین کے لیے پھندا بن چکا ہے۔
نیب کی فہرست کے مطابق، ایکسائز کے جن انسپکٹر ز اور افسران کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے ان میں
انسپکٹرز عامر رشید، امجد بھٹی، اظہر بشیر، غلام مہدی، خالد بشیر، سیف اللہ، قرۃالعین منوراور ایم آر اے افسران: محمد رضوان، خالد بشیر، راشد علی، عدنان منظور، اسد علی، زاہد محمود، عمار بٹ و دیگر شامل ہیں۔انکوائری کے دیگر شریک اہلکاروں میں PITB کے رانا محمد حارث اور ایک پروگرامر بھی شامل ہیں
زرائع کا کہنا ہے کہ قانون میں کی گئی ترامیم نے گاڑیوں کی خرید و فروخت کو غیر محفوظ بنا دیا ہے، اور یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ سہولت کے نام پر متعارف کیا گیا پیپر لیس نظام جعلسازی کا آلہ بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ان قوانین پر نظرثانی کی جائے۔ تاکہ عوام کے حقوق اور ریاستی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔