پیپر لیس ٹرانزکشن

پیپر لیس ٹرانزکشن کاکمال۔وفات پانے والا ڈیڑھ سال بعد بائیومیٹرک کر گیا

شہبازاکمل جندران۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ میں پیپر لیس ٹرانزکشن کی بدولت ایک اور بڑا سکینڈل سامنے آ گیا یے۔

حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے محکمہ مواصلات و تعمیرات کے سابق ایس ڈی او امتیاز احمد 7 مئی 2022 کو وفات پاگئے تاہم 10 جنوری 2024 کو اپنی وفات کے ڈیڑھ برس بعد ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں متوفی امتیاز احمد زندہ ہوا اور اس نے اپنی ملکیتی گاڑی نمبری599-11-LEB اسد عباس کو بیچتے ہوئے اپنی بائیومیٹرک ویری فکیشن بھی دیدی۔جس کے باعث ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے مذکورہ گاڑی دوسرے فرد کے نام ٹرانسفر کردی۔
پیپر لیس ٹرانزکشن
صورتحال اس وقت سامنے آئی جب محکمے کے سامنے 1007 گاڑیوں کی بائیومیٹرک تصدیق سکپ کرتے ہوئے ان گاڑیوں کی ٹرانسفر کا انکشاف سامنے آیا اور محکمے نے مذکورہ گاڑی بھی دیگر 1006 گاڑیوں کے ہمراہ اپنے ریکارڈ میں سسپنڈ کر دی۔
پیپر لیس ٹرانزکشن
ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس
کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بائیومیٹرک ویری فکشن سکپ کرتے ہوئے 1007 گاڑیوں کی تبدیلی ملکیت کے سکینڈل کی اصل وجہ گاڑیوں کی پیپر لیس ٹرانسفر/ٹرانزکشن قرار دی جاتی ہے۔
پیپر لیس ٹرانزکشن
2022 کے آغاز میں اس وقت کے ڈائیریکٹر ایکسائز لاہور ریجن سی قمرالحسن سجاد نے بصد اصرار لاہور سمیت صوبے بھر میں گاڑیوں کی ٹرانسفر/ٹرانزکشن کے لئے
paper less
ٹرانزکشن کا عمل شروع کروایا اور پنجاب موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کے سیکشن 32 کی تشریح بھی اپنی ہی مرضی سے کرتے ہوئے قانون کو من چاہے طریقے سے موڑدیا۔

جس کے نتیجے میں لاہور سمیت صوبے بھر میں گاڑیوں کی ٹرانسفر یا تبدیلی ملکیت کے لئے گاڑی کی اصل دستاویزات اور اصل رجسٹریشن بک یا سمارٹ کارڈ کی چیکنگ اور دستاویزات پر SEEN کی سٹیمپ لگانے اور ان پر انسپکٹر و ایم آ ر اے کے دستخطوں کو ممنوع قرار دیدیا گیا۔

اور محکمے میں گاڑیوں کی تبدیلی ملکیت کو مکمل پیپر لیس کرکے ڈیجیٹل ورلڈ میں داخل ہونے کا نعرہ لگادیا۔اور ساتھ ہی تبدیلی ملکیت کے لئے متوازی مینوئل نظام چلانے سے سختی سے رکوادیا۔

اور اس وقت کے ڈائیریکٹر جنرل محمد علی رندھاوا، ڈاکٹر آصف طفیل اور سیکرٹری وقاص علی محمود بھی قمرالحسن سجاد کی ماڈرن ورلڈ میں داخلے کی باتوں میں آکر پیپرلیس ٹرانزکشن کے حامی بن گئے اگرچہ وقاص علی محمود پیپر لیس ٹرانزکشن کی خامیوں اور مستقبل میں اس کے مضمرات سے آگاہ ہوگئے لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی اور وہ ٹرانسفر ہوگئے۔

جبکہ موجودہ ڈی جی ایکسائز محمد علی اور سیکرٹری مسعود مختار ابھی تک اس سکینڈل کی بنیاد تک نہیں پہنچ پائے اور نہ ہی انہوں نے پیپرلیس ٹرانزکشن کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے۔

ذرائع کے مطابق محکمے میں پیپر لیس ٹرانزکشن کے “موجد” قمرالحسن سجاد اتنا بڑا سکینڈل سامنے آنے کے باوجود پیپر لیس ٹرانزکشن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور اس سکینڈل میں پیپر لیس ٹرانزکشن کو ” بے قصور ” قرار دیتے ہیں۔حالانکہ پیپر لیس ٹرانزکشن نہ ہوتی تو 1007 گاڑیوں میں سے ایک بھی گاڑی ٹرانسفر نہ ہوتی۔ ٹرانزکشن سے قبل ہر گاڑی کی اوریجنل فائل اور اصل سمارٹ کارڈ ڈی ای او، انسپکٹر اور یم آر اے کے سامنے آتے اور وہ ان پر دستخط بھی کرتے۔

کسی فوت شدہ گاڑی مالک کا کیس سامنے آتا بھی تو دوسرے فریق کے پاس گاڑی کی اصل فائل اور اصل سمارٹ کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ٹرانزکشن مکمل ہونے سے پہلے ہی رک جاتی اور شہریوں کے حقوق محفوظ رہتے۔