شہبازاکمل جندران۔
ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بائیومیٹرک ویری فکشن سکپ کرتے ہوئے گاڑیوں کی تبدیلی ملکیت کے سکینڈل کی اصل وجہ گاڑیوں کی پیپر لیس ٹرانسفر/ٹرانزکشن بنی۔
2022 کے آغاز میں اس وقت کے ڈائیریکٹر ایکسائز لاہور ریجن سی قمرالحسن سجاد نے بصد اصرار لاہور سمیت صوبے بھر میں گاڑیوں کی ٹرانسفر/ٹرانزکشن کے لئے paper less ٹرانزکشن کا عمل شروع کروایا اور پنجاب موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کے سیکشن 32 کی تشریح بھی اپنی ہی مرضی سے کرتے ہوئے قانون کو من چاہے طریقے سے موڑدیا۔
جس کے نتیجے میں لاہور سمیت صوبے بھر میں گاڑیوں کی ٹرانسفر یا تبدیلی ملکیت کے لئے گاڑی کی اصل دستاویزات اور اصل رجسٹریشن بک یا سمارٹ کارڈ کی چیکنگ اور دستاویزات پر SEEN کی سٹیمپ لگانے اور ان پر انسپکٹر و ایم آ ر اے کے دستخطوں کو ممنوع قرار دیدیا گیا۔
اور محکمے میں گاڑیوں کی تبدیلی ملکیت کو مکمل پیپر لیس کرکے ڈیجیٹل ورلڈ میں داخل ہونے کا نعرہ لگادیا۔اور ساتھ ہی تبدیلی ملکیت کے لئے متوازی مینوئل نظام چلانے سے سختی سے رکوادیا۔
اور اس وقت کے ڈائیریکٹر جنرل محمد علی رندھاوا، ڈاکٹر آصف طفیل اور سیکرٹری وقاص علی محمود بھی قمرالحسن سجاد کی ماڈرن ورلڈ میں داخلے کی باتوں میں آکر پیپرلیس ٹرانزکشن کے حامی بن گئے اگرچہ وقاص علی محمود پیپر لیس ٹرانزکشن کی خامیوں اور مستقبل میں اس کے مضمرات سے آگاہ ہوگئے لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی اور وہ ٹرانسفر ہوگئے۔
جبکہ موجودہ ڈی جی ایکسائز محمد علی اور سیکرٹری مسعود مختار ابھی تک اس سکینڈل کی بنیاد تک نہیں پہنچ پائے اور نہ ہی انہوں نے پیپرلیس ٹرانزکشن کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے۔
عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سیکرٹری و ڈی جی ایکسائز پیپر لیس ٹرانزکشن کی قانونی حیثیت کی جانچ کریں اور پیپر لیس ٹرانزکشن کو ختم کرتے ہوے گاڑیوں کی ٹرانسفر/ٹرانزکشن میں اصل دستاویزات اور سمارٹ کارڈ کی کی انسپکشن اور ان پر انسپکٹر و ایم آر اے کے دسخطوں کو لازمی قرار دیں۔تاکہ مستقبل میں ایسے سکینڈلز سے بچا جاسکے.